یورپی یونین نے افغان تارکین وطن کو واپس افغانستان بھیجنے کیلئے طالبان حکومت سے رابطے شروع کردیے


یورپی یونین نے افغان تارکین وطن کو واپس افغانستان بھیجنے کیلئے طالبان حکومت سے رابطے شروع کردیے

فوٹو: فائل

برسلز: یورپی یونین نے اعلان کیا ہے کہ اس نے افغان شہریوں کی واپسی کے لیے  افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ ابتدائی رابطے قائم کیے ہیں۔

ان رابطوں کا مقصد  یورپ میں موجود ان افغان شہریوں کی واپسی پر پیشرفت کرنا ہے جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہوچکی ہیں۔

غیر ملکی خبررساں ایجسنی کے مطابق یورپی کمیشن کے ترجمان مارکس لامرٹ نے برسلز میں پریس کانفرنس کے دوران تصدیق کی کہ رکن ممالک کی درخواست پر افغانستان سے رابطے کا تکنیکی عمل شروع کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اس سال کے اوائل میں ہم نے افغانستان میں ’ڈی فیکٹو اتھارٹیز‘ (طالبان حکومت) کے ساتھ تکنیکی سطح پر ابتدائی رابطے شروع کیے ہیں‘۔

یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اکثر یورپی ممالک نے ایک خط یورپی کمیشن پر زور دیا کہ وہ افغانستان سے براہِ راست رابطہ کرے تاکہ ان افغان شہریوں کی جبری یا رضاکارانہ واپسی ممکن بنائی جا سکے جنہیں یورپ میں رہنے کا حق نہیں۔

یہ خط بیلجیم کی جانب سے تیار کیا گیا تھا اور اس پر 20 یورپی ممالک نے دستخط کیے جن میں آسٹریا، جرمنی، یونان، اٹلی، نیدرلینڈز، ناروے، پولینڈ اور سویڈن شامل ہیں۔

یہ ممالک یورپی یونین کے ان سخت گیر رکن ممالک میں شمار ہوتے ہیں جو امیگریشن پر مزید پابندیاں لگانے کے حق میں ہیں،  خاص طور پر اس وقت جب عوامی رائے میں تبدیلی کے باعث یورپ میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کو انتخابی فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔

بیلجیم کی وزیر برائے امیگریشن اینلین وین بوسوٹ نے کہا ہے کہ ’ہم غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو، حتیٰ کہ سزا یافتہ افراد کو بھی، واپس نہیں بھیج سکتے۔ یہ صورتحال عوام کے اعتماد کو متاثر کر رہی ہے اور ہماری اجتماعی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ یورپ مشترکہ طور پر اقدام کرے‘۔

یورپی یونین کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت یونین سے ملک بدری کے احکامات پانے والے صرف 20 فیصد افراد کو ہی ان کے آبائی ممالک واپس بھیجا جا رہا ہے، جس پر رکن ممالک میں تشویش پائی جاتی ہے۔

خیال رہےکہ فی الحال یورپی یونین کی افغانستان میں محدود سفارتی موجودگی برقرار ہے تاہم زیادہ تر رابطے انسانی امداد اور تکنیکی تعاون تک محدود ہیں۔



Source link

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *