افغان طالبان یورپ میں اسائلم کیلئے 40 پاؤنڈ میں دھمکی آمیز خط فروخت کرنے لگے


افغان طالبان یورپ میں اسائلم کیلئے 40 پاؤنڈ میں دھمکی آمیز خط فروخت کرنے لگے

فوٹو: فائل

برطانوی اخبار کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ  افغان طالبان کی جانب  سے پیسوں کے عوض  افغان شہریوں کو  موت کی دھمکیوں کے جعلی خط  جاری کیے جا رہے ہیں  تاکہ  اس خط کو  مغربی ممالک میں پناہ (اسائلم) حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا  جاسکے۔

برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق یورپ   آنے والے افغان پناہ گزین  طالبان سے حاصل کردہ جعلی موت کی دھمکیوں  پر مبنی خطوط کا استعمال کر رہے ہیں۔

 رپورٹ کے مطابق بدعنوان افغان حکام جعلی دھمکیوں والا خط پیسوں (رشوت) کے عوض جاری کرتے ہیں۔یہ خط افغان پناہ گزین اپنی اسائلم کی درخواست میں بطور ثبوت جمع کرواتے ہیں کہ افغانستان میں ان کی جان کو خطرہ ہے۔

برطانوی اخبار کے رپورٹر نے اسٹنگ آپریشن کرتے ہوئے 3 مختلف علاقوں کی مقامی انتظامیہ سے 40 برطانوی پاؤنڈ(ساڑھے 3 ہزار افغانی) کے عوض جعلی خطوط حاصل کیے جن میں طالبان حکام کے دستخط بھی موجود تھے۔

خطوط میں دھمکی دی گئی تھی کہ آپ نے کیونکہ دشمن برطانوی حکومت سے تعاون کیا ہے اس لیے آپ کو سزا دی جائے گی۔ ایک خط میں کہا گیا کہ  طالبان آپ کی تمام سوشل میڈیا سرگرمیوں کی نگرانی کر رہے ہیں، آپ کو قانون کا سامنا کرنا ہوگا  اور آپ اس ‘شرمناک’  زندگی سے آزاد ہو جائیں گے۔ایک اور خط میں دھمکی دی گئی کہ   آپ کا خاندان طالبان کی نگرانی میں ہے اور ہمارے پاس آپ کے برطانیہ سے تعاون کے ثبوت ہیں، اس لیے فوراً خود کو پیش کردو  ورنہ نتائج کی ذمہ داری آپ کی ہوگی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دھمکی آمیز خطوط میں اس ملک کا نام بھی ہوتا ہے جس ملک میں افغان پناہ گزین نے درخواست جمع کرائی ہوتی ہے۔

‘پریمیئم’ خط  میں طالبان حکام کی مہر بھی لگی ہوتی ہے

رپورٹ کے مطابق ایسے خطوط کی بھی دو اقسام ہیں، ایک 40 پاؤنڈ والا اور دوسرا 200 پاؤنڈ (ساڑھے 17 ہزار افغانی ) والا ‘پریمیئم’ خط جس میں طالبان حکام کی مہر بھی لگی ہوتی ہے اور اس کی منظوری کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔

اخبار کا کہنا ہے ایسے جعلی خطوط کی وجہ سے حقیقی پناہ گزینوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق  2022 میں ایک لاکھ سے زائد  افغانوں نے برطانیہ میں پناہ کے لیے درخواست دی تھی، ان کا دعویٰ تھا کہ  انہوں نے 2021  میں طالبان کی واپسی  سے  پہلے برطانوی افواج کی  مدد کی تھی یا  ان کے ساتھ مل کر لڑائی کی تھی، اس لیے اب افغانستان میں ان کی جان کو خطرہ ہے۔

تاہم اخبار کے مطابق  متعدد ذرائع نے بتایا کہ ان میں سے زیادہ تر کا ایسا کوئی تعلق نہیں تھا اور پناہ کی درخواست دینے والےکم لوگ ہی ایسے تھے جن کا کیس اصلی تھا۔

ایک شخص نے بتایا کہ کچھ لوگ تو خود ہی پشتو میں دھمکی آمیز خط لکھ لیتے ہیں کیونکہ ایسے خطوط کی تصدیق کا کوئی طریقہ نہیں اور برطانوی ہوم آفس انہیں قبول کرلیتا ہے۔

برطانوی اخبار کے استفسار  پر ایک طالبان اہلکار کا کہنا تھا کہ  کچھ مقامی طالبان یہ خطوط اعلیٰ قیادت  سے اجازت کے بغیر تیار کر رہے ہیں، لیکن یہ غیر قانونی ہے اور اگر وہ  پکڑےگئے تو انہیں نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

طالبان  اہلکار کا کہنا تھا کہ  ہمیں اب خطوط بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے، اب ہم حکومت میں ہیں، اگرکسی نے غیر قانونی عمل کیا ہے تو ہم اسے گرفتار کرلیتے ہیں ۔

یورپی یونین کے افغان تارکین وطن کو واپس بھیجنےکیلئےطالبان سے رابطے

خیال رہےکہ حال ہی میں  یورپی یونین نے اعلان کیا ہے کہ اس نے افغان شہریوں کی واپسی کے لیے افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ ابتدائی رابطے قائم کیے ہیں۔

یورپی کمیشن کے ترجمان مارکس لامرٹ نے برسلز میں پریس کانفرنس کے دوران تصدیق کی کہ رکن ممالک کی درخواست پر افغانستان سے رابطےکا تکنیکی عمل شروع کیا گیا ہے، ان رابطوں کا مقصد  یورپ میں موجود ان افغان شہریوں کی واپسی پر پیشرفت کرنا ہے جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہوچکی ہیں۔

یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اکثر یورپی ممالک نے ایک خط یورپی کمیشن پر زور دیا کہ وہ افغانستان سے براہِ راست رابطہ کرے تاکہ ان افغان شہریوں کی جبری یا رضاکارانہ واپسی ممکن بنائی جا سکے جنہیں یورپ میں رہنے کا حق نہیں۔

یہ خط بیلجیم کی جانب سے تیار کیا گیا تھا اور اس پر 20 یورپی ممالک نے دستخط کیے جن میں آسٹریا، جرمنی، یونان، اٹلی، نیدرلینڈز، ناروے، پولینڈ اور سویڈن شامل ہیں۔

یہ ممالک یورپی یونین کے ان سخت گیر رکن ممالک میں شمار ہوتے ہیں جو امیگریشن پر مزید پابندیاں لگانے کے حق میں ہیں، خاص طور پر اس وقت جب عوامی رائے میں تبدیلی کے باعث یورپ میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کو انتخابی فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔



Source link

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *