پاکستان نے سعودی عرب کے سامنے کیا مطالبہ رکھا؟ حامد میر نے تفصیلات بتادیں


پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حال ہی میں ہونے والے دفاعی معاہدے سے جہاں ایک طرف مسلم ممالک میں خوشی کی لہر پائی جا رہی ہے وہیں بھارت اور اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کو اپنے لیے مستقبل کا خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے معاہدے کو نیٹو میں شامل ممالک کے مابین ہونے والے معاہدے جیسا معاہدہ قرار دیا جا رہا ہے، اس معاہدے کو نیٹو جیسا معاہدہ کیوں کہا جا رہا ہے اور کیا ہم پاک سعودیہ معاہدے کو نیٹو کے ساتھ کمپیئر کر سکتے ہیں؟

سینئر تجزیہ کار حامد میر نے اس حوالے سے اپنے یو ٹیوب چینل پر ایک تفصیلی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے اس معاہدے کی وجوہات پر روشنی ڈالی ہے جو قارئین کے لیے پیش کی جا رہی ہیں۔

نیٹو ممالک کا معاہدہ

نیٹو میں امریکا سمیت 32 یورپی ممالک شامل ہیں نیٹو کے معاہدے پر نظر ڈالیں، خاص طور پر اس کے آرٹیکل 5 کو دیکھیں تو اس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اگر کسی ایک نیٹو ملک پر حملہ ہوتا ہے تو اسے تمام نیٹو ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا اور نیٹو میں شامل تمام ممالک اس حملے کا مشترکہ طور پر جواب دیں گے۔

پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ

اگر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے معاہدے پر نظر ڈالیں تو اس میں بھی نیٹو معاہدے کے آرٹیکل فائیو والی چیزیں تھوڑے مختلف الفاظ کے ساتھ موجود ہیں یعنی اگر پاکستان اور سعودی عرب میں سے کسی بھی ملک پر حملہ ہو گا تو وہ دونوں ممالک کے درمیان حملہ تصور ہو گا۔

ابھی تو اس معاہدے میں صرف دو ممالک شامل ہیں لیکن آنے والے دنوں میں اس معاہدے میں مزید ممالک شامل ہوں گے، عام خیال یہی ہے کہ اس معاہدے میں کچھ خلیجی ممالک شامل ہوں گے، یقیناً اس میں کچھ خلیجی ممالک شامل ہوں گے، خاص طور پر 2 عرب ممالک اس معاہدے میں شامل ہونے والے ہیں اور اس حوالے سے بیک چینل کے ذریعے بات چیت آخری مرحلے میں ہے۔

ہو سکتا ہے اس معاہدے میں کچھ ایسے ممالک بھی شامل ہو جائیں جو مسلم ممالک تو ہیں لیکن اس کا تعلق خلیجی ریاستوں یا مشرق وسطیٰ سے نہیں ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کو اس معاہدے کی کیا ضرورت تھی؟

پاکستان ایک نیوکلیئر پاور ہے تو اس کو کیا ضرورت پڑی کہ وہ ایک عرب ملک کے ساتھ دفاعی معاہدہ کر رہا ہے یا سعودی عرب جو کہ دنیا کے امیر ترین ممالک میں شامل ہے اسے کیا ضرورت پڑی کہ وہ پاکستان کے ساتھ معاہدہ کر رہا ہے۔

پاک سعودیہ دفاعی تعاون کی تاریخ

اگر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعاون کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون 1969 سے چل رہا ہے، 1969 سے پاکستانی ائیر فورس کے اہلکار سعودی عرب کے جہاز اڑا رہے ہیں اور سعودی عرب کی فضائی حدود کا تحفظ کر رہے ہیں۔

مکہ مکرمہ میں 1979 میں ایک واقعہ پیش آیا جب کچھ گمراہ لوگوں نے حملہ کرنے کی کوشش کی اور خانہ کعبہ میں خونزیری ہوئی، ایک شخص کی جانب سے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا گیا اور اس کے پیروکاروں کی جانب سے مکہ مکرمہ میں ہنگامہ آرائی کی گئی تو ان لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لیے سعودی حکومت نے پاکستان کے ایس ایس جی کمانڈوز کی خدمات حاصل کیں۔

پاکستانی کمانڈوز نے کچھ دیگر ملکوں کی فورسز کے ساتھ ملکر ایک بہت بڑا آپریشن کیا جس میں بہت سے گمراہ لوگوں کو ہلاک کیا گیا اور کچھ کو گرفتار بھی کیا گیا، اس واقعے کے بعد سے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان بہت قریب ہوتے چلے گئے۔

اس کے بعد 80 کی دہائی میں جب عراق اور ایران کے درمیان جنگ ہوئی تو عراق کی جانب سے سعودی عرب سمیت کچھ عرب ممالک کے لیے کچھ خطرات پیدا ہوئے تو اس دوران 1982 سے لیکر 1987 تک پاکستان کے کم از کم 20 ہزار فوجی سعودی عرب کی سرحدوں پر موجود رہتے تھے۔

یہی نہیں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول اور پی اے ایف رسالپور میں سعودی کیڈٹس کو کئی سالوں میں ٹریننگ دی جا رہی ہے، دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون تو کئی سالوں سے چل رہی ہے اب اسے عملی شکل دے دی گئی ہے۔

پاکستانیوں کی حرمین الشریفین سے عقیدت و احترام کا ایک بہت ہی گہرا رشتہ ہے اور اگر حرمین الشریفین پر خدانخواستہ حملہ ہوتا ہے تو اس کے لیے سعودی عرب کو پاکستان سے کہنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ پاکستان ان مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لیے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کر دے گا۔

دفاعی معاہدہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

اگر بین الاقوامی میڈیا کو مانیٹر کریں تو وہاں اس حوالے سے جو باتیں کی جا رہی ہیں ان کے مطابق 9 ستمبر 2025 کو اسرائیل نے قطر پر جو حملہ کیا اس کے بعد دوحا میں ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا اور اس اجلاس میں اسلامی ممالک نے گریٹر اسرائیل منصوبے کی واضح الفاظ میں مذمت کی۔

گریٹر اسرائیل منصوبے ہندوستان کے اکھنڈ بھارت منصوبے جیسا ہی منصوبہ ہے، جس طرح بھارت کے انتہا پسند ہندو کہتے ہیں کہ ہم نے پاکستان، بنگلا دیش، سری لنکا، نیپال، برما، مالدیپ اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کو بھارت میں شامل کرنا ہے۔

اکھنڈ بھارت کی طرح بہت سے انتہا پسند صیہونی بھی بہت سے عرب ممالک کو اسرائیل میں شامل کر کے گریٹر اسرائیل بنانے کا منصوبہ رکھتے ہیں اور اس کا باقاعدہ نقشہ بھی موجود ہے، نقشے کے مطابق نیتن یاہو سمیت انتہا پسند صیہونی چاہتے ہیں کہ غزہ سمیت دریائے اردن کا مغربی کنارہ اور اس کے کنارے بہت سی بستیوں کو اسرائیل میں شامل کیا جائے، شام کے بہت سے علاقوں کو اسرائیل میں شامل کیا جائے، اردن، لبنان کے علاوہ عراق اور مصر کے بہت سے علاقوں کو گریٹر اسرائیل میں شامل کیا جائے، یہی نہیں کچھ نقشوں میں تو سعودی عرب کے کچھ علاقوں کو بھی گریٹر اسرائیل میں شامل کرنے کا منصوبہ ہے۔

کچھ مغربی یونیورسٹیوں میں گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر تحقیق بھی کی گئی جس میں پتہ چلا کہ اسرائیل نے اپنے گریٹر اسرائیل کے نقشے میں کچھ چیزوں کو شامل کیا ہوا ہے لیکن صیہونی اس اصل نقشے کو پبلک نہیں کرتے،  صیہونیوں نے گریٹر اسرائیل کے اصل نقشے میں مدینہ منورہ کو بھی شامل کیا ہوا ہے۔

اسرائیل کے قطر پر حملے کے بعد عرب ممالک نے یہ محسوس کیا کہ ہم نے تو اپنے ممالک میں امریکا کو فوجی اڈے دے رکھے ہیں تاکہ امریکا ہمیں سکیورٹی فراہم کرے لیکن قطر میں امریکی اڈے ہونے کے باوجود اسرائیل نے دوحا پر حملہ کر دیا تو یہ بہت سے عرب ممالک کے لیے ایک وارننگ تھی، باوجود اس کے امریکا نے ان کے ممالک میں فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ امریکا مشکل وقت میں ان ممالک کی مدد بھی کرے گا۔

ساری دنیا کو پتہ ہے کہ اسرائیل نے قطر پر حملہ کرنے سے پہلے امریکا کو آگاہ کیا اور امریکا نے اسرائیل کو نہیں روکا تو یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے کہ عرب ممالک کو اس بات احساس ہوا ہے امریکا کے فوجی اڈے ہماری سکیورٹی کی ضمانت نہیں ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اب عرب ممالک اپنی سکیورٹی کے لیے پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور سعودی عرب کے ساتھ ہونے والا دفاعی معاہدہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، آنے والے دنوں میں اس معاہدے میں کچھ اور ممالک بھی شامل ہوں گے اور ممکنہ طور پر اس معاہدے میں وہ ممالک بھی شامل ہوں جن کے بارے میں انتہا پسند صیہونیوں کا خیال ہے کہ وہ عرب ممالک گریٹر اسرائیل میں شامل کریں گے۔

گریٹر اسرائیل کے نقشے میں قطر شامل نہیں ہے لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ نیتن یاہو کی نظریں اب قطر پر بھی ہیں کیونکہ وہاں تیل اور گیس کے بہت زیادہ ذخائر ہیں تو نیتن یاہو صرف مذہبی نظریات کی وجہ سے ان ممالک پر قبضہ نہیں کرنا چاہتا بلکہ وہ ان ممالک کی معدنیات کو بھی ہتھیانا چاہتا ہے۔

پاکستان کو اس کا کیا فائدہ ہوگا؟

ایک اہم سوال جو لوگوں کے ذہنوں میں آتا ہے کہ دفاعی معاہدے کے ذریعے سعودی عرب تو اپنی جغرافیائی حدود کا تحفظ چاہتا ہے لیکن اس معاہدے سے پاکستان کو کیا فائدہ ہوگا؟

اس معاہدے سے پہلے پاکستان نے سعودی حکام کے ساتھ بہت سی بیٹھک کیں جس میں پاکستانی حکام نے سعودی عرب کو بتایا کہ ہمیں آپ سے کیا چاہیے۔

پاکستان نے سعودی عرب کو بتایا کہ اس معاہدے کے ذریعے ہمیں بھارت  اور اسرائیل کے ناپاک گٹھ جوڑ کے خلاف سعودی عرب کی حمایت درکار ہے، اب معاملہ اس طرح ہے کہ سعودی عرب کو اس وقت خطرہ اسرائیل سے ہے اور پاکستان کو خطرہ بھارت سے ہے اور بھارت کا اہم اتحادی اسرائیل ہے تو اس طرح اسرائیل صرف عرب ممالک کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے لیے بھی ایک خطرہ ہے۔

حکومت پاکستان کے پاس اطلاعات ہیں کہ بھارت کی ہندو انتہا پسند حکومت نے پاکستان پر ایک اور حملے کا منصوبہ بنا رکھا ہے اور ہندوستان جب بھی پاکستان پر حملہ کرے گا تو اسرائیل اس کو سپورٹ کرے گا۔

یاد رہے کہ اسرائیل ماضی میں کئی بار پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو تباہ کرنے کی کوشش کر چکا ہے، یہ کہانی بھی 80 کی دہائی سے شروع ہوتی ہے اور جب اسرائیل نے عراق کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کیا تھا تو اس وقت اسرائیل پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر بھی حملہ کرنا چاہتا تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے 1967 اور 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں عرب ممالک کو ائیر فورس کے ذریعے پروٹیکشن دی تھی۔

پاکستانی فضائیہ کے جہازوں نے ان جنگوں کے دوران ناصرف عرب ممالک کی فضائی سرحدوں کا تحفظ کیا تھا بلکہ اسرائیلی جہازوں کو تباہ بھی کیا تھا بلکہ اسی طرح کہ جس طرح پاکستان نے مئی 2025 میں انڈیا کے بہت سے جہاز گرائے تھے، اس لیے اسرائیل پاکستان کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتا ہے۔

پاکستانی حکام کی جانب سے سعودی عرب کے ساتھ یہ معلومات شیئر کی گئی کہ ہمیں بھارت کی جانب سے ایک اور حملے کے خطرے کا سامنا ہے اور آپ کو اسرائیل کی جانب سے حملے کا خطرہ ہے تو ایسی صورت میں دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کی ضرورت ہے۔



Source link

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *