ویانا: غزہ سے رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں نے اسرائیلی افواج کے ہاتھوں اپنے ساتھیوں کے قتل پر عالمی برادری کی خاموشی کے حوالے سے شدید مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ کے زیرِ اہتمام منعقدہ ورلڈ کانگریس اینڈ میڈیا انوویشن فیسٹیول 2025 کے دوسرے روز ایک پینل ڈسکشن میں غزہ جنگ کو کور کرنے والے صحافیوں نے عالمی برادری کی بے حسی اور ذرائع ابلاغ پر حملوں کے خلاف عملی اقدامات نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا۔
الجزیرہ کے ایگزیکٹو پروڈیوسر وائل الدحدوح نے جنگ زدہ غزہ میں رپورٹنگ کی اذیت ناک حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ایک صحافی کو ’انسان یا صحافی‘ میں سے کوئی ایک بننےکا فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔
وائل الدحدوح کے خاندان کے 5 افراد غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں میں جاں بحق ہوئے، اس حوالے سے انہوں نے سوال کیا کہ ’میرے گھر والوں نے کیا جرم کیا تھا؟ میری اہلیہ نے ان کا کیا بگاڑا تھا؟‘
انہوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی بتول، جو غزہ میں فضائی حملے کے بعد جو ملبے تلے دب کر بچ گئی تھی، اب کسی بھی ایسی جگہ رہنے کے لیے تیار نہیں ہوتی جس کی چھت ہو۔
وائل الدحدوح نے عالمی میڈیا پر الزام لگایا کہ انہوں نے صحافیوں کے خلاف کارروائیوں پر مؤثر ردِعمل نہیں دیا، انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اکیلا چھوڑ دیا گیا تھا‘۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے لے کر اب تک اسرائیلی حملوں میں 238 صحافی اور میڈیا ورکرز جاں بحق ہو چکے ہیں۔
پینل ڈسکشن میں باسل خلیف (العربی ٹی وی)، روان دامن (ڈائریکٹر جنرل، عرب رپورٹرز فار انویسٹی گیٹو جرنلزم ) اور لورینٹ رچرڈ (بانی، فوربیڈن اسٹوریز) بھی شامل تھے۔
روان دامن نے وائل الدحدوح کی متوازن اور بہادرانہ رپورٹنگ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان پر حملہ دراصل صحافت کے رول ماڈل پر حملہ تھا۔ انہوں نے غزہ میں جاری نسل کشی پر عالمی میڈیا کی خاموشی اور اس حوالے سے آواز اٹھانے والے آزاد میڈیا اداروں اور چند تنظیموں کے کردار میں فرق کو ظاہر کیا۔
لورینٹ رچرڈ نے صحافیوں کے خلاف اقدامات پر مسلسل خاموشی کے حوالے سے خبردار کرتےہوئے کہا کہ صحافیوں کا قتل اور پھر سزا سے بچ نکلنا اب ’معمول‘ بنتا جارہا ہے۔
باسل خلیف نے غزہ کی موجودہ صورتحال کو ’قبرستان‘ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ ’جنگ سے پہلے ہم غزہ کو ایک بڑی جیل کہتے تھے، اب یہ ایک بڑا قبرستان بن چکا ہے‘۔
انہوں نے عالمی میڈیا سے اپیل کی کہ وہ اعداد و شمار سے آگے بڑھ کرغزہ کے صحافیوں کی کہانی بیان کرے۔























Leave a Reply