بنگلا دیش میں نوجوان سیاسی رہنما شریف عثمان ہادی کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں شدید احتجاج اور پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
دارالحکومت ڈھاکا میں مشتعل مظاہرین نے سڑکوں پر نکل کر عوامی لیگ اور میڈیا اداروں کے دفاتر کو آگ لگا دی، توڑ پھوڑ کرکے اہم سڑکیں بند کردیں جبکہ مظاہرین کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کی بھی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔
احتجاج کے دوران مظاہرین نے عثمان ہادی کے حق میں نعرے لگائے اور انصاف کی فراہمی تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ہادی پر حملے کے ذمہ داروں کو فوری طور پر انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
راجشاہی میں مظاہرین کی جانب سے شیخ مجیب الرحمان کی رہائش گاہ کو بھی نذر آتش کرنے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔
حکام نے مظاہروں کے پیش نظر مختلف علاقوں میں سکیورٹی سخت کر دی۔
عثمان ہادی جولائی میں حسینہ واجد حکومت کا تختہ الٹنے والی طلبہ تحریک کے اہم رہنما تھے اور طلبہ رہنماؤں کے قائم کردہ سیاسی پلیٹ فارم انقلاب منچہ کے ترجمان بھی تھے۔
انہیں گزشتہ جمعے کو ڈھاکا میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے شدید زخمی کردیا تھا۔ عثمان ہادی کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کا آپریشن کیا گیا تاہم انہیں مزید علاج کے لیے ہفتے کے روز سنگاپور منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ آج دوران علاج انتقال کرگئے۔























Leave a Reply