اسلام آباد: وفاقی کابینہ کے سینئر ارکان کی جانب سے متعدد مرتبہ اس بات پر زور دیے جانے کے باوجود کہ 9 مئی کے واقعات کے پیچھے سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے درمیان مبینہ گٹھ جوڑ تھا، فوج کے میڈیا ونگ نے تاحال اپنے کسی بھی باضابطہ بیان میں واضح طور پر ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ سمیت دیگر حکومتی شخصیات نے 9 مئی 2023 کے واقعات پر بات کے دوران کھل کر عمران خان اور فیض حمید کے مبینہ تعلق کا حوالہ دیا ہے۔
تاہم، جب براہ راست یہ سوال کیا گیا کہ آیا یہ دعویٰ کسی سول یا فوجی تحقیقاتی نتائج پر مبنی ہے یا محض قرائن شہادت کی بنیاد پر، تو شہباز حکومت کے مرکزی ترجمان اور وزیر اطلاعات نے واضح جواب دینے سے گریز کیا اور کہا کہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) سے پوچھا جائے۔
دی نیوز سے گفتگو میں وزیر اطلاعات نے پہلے تو یہ کہا کہ معاملہ آئی ایس پی آر کے روبرو اٹھایا جانا چاہیے۔ جب انہیں یاد دلایا گیا کہ ایسے دعوے خود حکومتی وزراء کر رہے ہیں تو انہوں نے ایک مرتبہ پھر آئی ایس پی آر سے وضاحت لینے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ادارے کا پریس ریلیز ’’واضح‘‘ ہے اور وزرا نے اسی پر تبصرہ کیا ہے۔
تاہم، آئی ایس پی آر کی حالیہ پریس ریلیز، جس میں جنرل فیض حمید کی سزا کا بتایا گیا ہے، کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ 9 مئی کے واقعات کے پیچھے سابق جرنیل اور عمران خان کا ہاتھ تھا۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی تکمیل کے اعلان کیلئے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ جنرل فیض حمید کیخلاف کارروائی 12 اگست 2024 کو پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت شروع کی گئی، جو تقریباً 15 ماہ جاری رہی۔
پریس ریلیز کے مطابق، سابق ڈی جی آئی ایس آئی پر چار الزامات ثابت ہوئے: سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی جو ریاست کی سلامتی اور مفاد کیلئے نقصان دہ تھی، اختیارات اور سرکاری وسائل کا ناجائز استعمال، اور افراد کو نقصان پہنچانا۔ انہیں 11 دسمبر 2025 کو 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔
بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ کورٹ مارشل کی کارروائی تمام قانونی تقاضوں کے مطابق کی گئی، ملزم کو اپنی مرضی کی دفاعی ٹیم سمیت تمام قانونی حقوق فراہم کیے گئے، اور انہیں متعلقہ فورم پر اپیل کا حق بھی حاصل ہے۔
آئی ایس پی آر کے بیان کا آخری پیراگراف وہ پوائنٹ بنا جس نے قیاس آرائیوں کو جنم دیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ سزا یافتہ شخص کی بعض سیاسی عناصر کے ساتھ مل کر مفاد پرستانہ سیاسی انتشار اور عدم استحکام پیدا کرنے میں مبینہ شمولیت اور چند دیگر معاملات کو علیحدہ دیکھا جا رہا ہے۔
اگرچہ اس سطر کو سیاسی رہنماؤں اور میڈیا کے تجزیہ نگاروں کی جانب سے 9 مئی کے واقعات اور مبینہ عمران فیض گٹھ جوڑ کی طرف اشارہ سمجھا گیا، تاہم آئی ایس پی آر کے بیان میں عمران خان کا نام لیا گیا، نہ پاکستان تحریکِ انصاف کا ذکر کیا گیا اور نہ ہی 9 مئی کے تشدد کو براہِ راست بیان سے جوڑا گیا۔
اسی طرح بیان میں کہیں بھی واضح طور پر یہ نہیں کہا گیا کہ جنرل فیض کے اقدامات کا تعلق 9 مئی کے واقعات سے تھا۔ جب اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے وزیرِ اطلاعات سے یہ درخواست کی گئی کہ وہ آئی ایس پی آر کا کوئی ایسا بیان فراہم کریں جس میں 9 مئی کے پس منظر میں عمران فیض گٹھ جوڑ کا براہِ راست ذکر ہو، تو وہ ایسی کوئی مثال پیش نہ کر سکے۔
حکومت کے سیاسی بیانیے اور فوج کے سرکاری بیانات میں یہ فرق اس سوال کو جنم دے رہا ہے کہ آیا 9 مئی کے پیچھے عمران فیض گٹھ جوڑ کا دعویٰ کسی باقاعدہ تحقیق یا دستاویزی شواہد پر مبنی ہے، یا پھر یہ وسیع تر سیاسی عدم استحکام کے الزامات سے اخذ کیا گیا ایک مفروضہ۔






















Leave a Reply