سپریم کورٹ کا ہر جج پاکستان میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ہے: جسٹس اطہرمن اللہ


سپریم کورٹ کا ہر جج پاکستان میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ہے: جسٹس اطہرمن اللہ

مسنگ پرسنز کا مسئلہ میرے دل کے بہت قریب ہے، بلوچستان کی بچیاں، خواتین سڑکوں پر رُل رہی ہیں ہمیں شرم آنی چاہیے: سپریم کورٹ کے جج کا تقریب سے خطاب— فوٹو:فائل

سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا ہر جج پاکستان میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ہے۔

ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی تقریب سے خطاب میں جسٹس اطہر من اللہ کا کہناتھاکہ سچ بولنا بہت مشکل ہے جو سچ بولتا ہے اس سے سب سے زیادہ نفرت کی جاتی ہے، وکلا تحریک کا کردار جمہوریت اور آئین کی بحالی تھا، وکلا تحریک نے شہریوں کی بڑی تعداد کو اپنی طرف راغب کیا۔

انہوں نے کہاکہ گمشدگی کے کیس سب سے زیادہ مشکل ہوتے ہیں، ریاست کا کام اپنے بچوں کی حفاظت کرنا ہے، میں نے مسنگ پرسنز کیس کا جب پہلا فیصلہ دیا جس کے اثرات 4 سال تک مثبت رہے، اپنے افسر کوکہاکہ اپنےعلاقے میں مسنگ پرسنز کیس کو برداشت نہیں کرسکتا، سرکار کا کام احتساب کرناہے، سب کی حفاظت کرناہے، آئینی عدالت کو چوبیس گھنٹےکھلےرہنا چاہیے، میں نےفیصلے میں کہا مسنگ پرسنزکیس میں کسی سرکاری افسرکےساتھ نرمی نہیں دکھائی جائےگی۔

جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھاکہ اگر ریاست گمشدہ کیسز میں ملوث ہو تو عدالتیں کچھ نہیں کرسکتیں، سپریم کورٹ کا ہر جج پاکستان میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ہے، بلوچستان کی بچیاں، خواتین سڑکوں پر رُل رہی ہیں ہمیں شرم آنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھاکہ عوام کا اسلام آباد ہائیکورٹ پر اعتماد تھا، مسنگ پرسن کے متاثرہ شخص نے واپس آکر بیان دیاکہ شمالی علاقہ جات کی سیر کرنےگیاہواتھا، سپریم کورٹ کے ہوتے ہوئے بلوچستان کے طلبہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا، بلوچستان کے طلبہ جب میری عدالت آئے تو مجھے سمجھ نہیں آئی کیا کروں، بلوچستان کے طلبہ کاکیس میری عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا، بلوچستان ہر شہری کے لیے اہم صوبہ ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم میں آرٹیکل 184 میں ترمیم نہیں کی گئی، عدالتوں کے لیے مشکل ہوجاتا ہے جب سرکار تعاون نہ کرے، آئین کے مطابق سرکار کی جانب سے تعاون نہ کرنے پر وزیراعظم، وفاقی کابینہ ذمہ دار ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھاکہ 2023 میں چیف جسٹس کولکھا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی سب سے بڑا مسئلہ ہے، میرے خط لکھنے پر کچھ نہیں ہوا، میرے پاس کچھ اختیار نہیں تھا، مسنگ پرسنز کا مسئلہ میرے دل کے بہت قریب ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ کے مطابق پاکستان کو آزاد ججز اور آزاد عدلیہ کی ضرورت ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ میں ملک بھر سے لوگ آتےتھےکیونکہ آزاد ججز تھے، ہمیشہ پارلیمنٹ اور منتخب نمائندوں کی عزت کی جو 77 سال سے متاثر رہے، سرکار اور ججز شاید سمجھنا نہیں چاہتےکہ مسنگ پرسنز ایک مسئلہ ہے، سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں آکر بالکل بدل جاتی ہیں، سچ بولنا چاہیے، سچ تب بولنا چاہیے جب بولنا ضروری ہو۔

انہوں نے کہا کہ اگر جمہوریت، آئین، آزاد عدلیہ نہ ہو نئی نسل کے ساتھ انصاف نہ ہوگا، سرکار میں رہنے والے 77 سال سے سچ نہیں بول پائے، سچ بولیں گے تو حالات بدلیں گے، سب کو سچ معلوم ہے لیکن ہم سب سچ جاننا نہیں چاہتے۔



Source link

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *