
جیو نیوز کی کراچی میں منشیات کی سپلائی اور ڈرگ ڈیلرز سے متعلق تحقیقات میں اہم انکشافات سامنے آگئے۔
دنیا کے دیگر بڑے شہروں کی طرح کراچی میں بھی منشیات کا دھندا زوروں پرہے، کوکین، ہیروئن، آئس اور ویڈ سمیت بھانت بھانت کی یہ منشیات کہاں اور کن راستوں سے کراچی آتی ہے؟ جیونیوز کی تحقیق بتاتی ہے کہ اس کا ایک مرکز تو دنیا کو سب سے زیادہ منشیات اسمگل کرنے والا ملک افغانستان ہے جبکہ ڈرگ ڈیلر کالے دھن سے جُڑے اس دھندے کیلئے ایران، کیوبا، کولمبیا اور امریکا کو بھی استعمال کررہے ہیں۔
منشیات فروشی عالمی سطح پر اربوں ڈالر کا مال اور جان لیوا کالا دھندا، اس سے جُڑی مافیا اتنی بڑی اور اتنی طاقتور ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی، بے تحاشا مالی وسائل اور اندھی طاقت کی حامل ریاستیں بھی اس کی سرکوبی میں ناکام ہیں۔
تو پھر کراچی کیسے بچتا؟ یہاں بھی مقامی اور بین الاقوامی ڈرگ ڈیلرز نے اپنے ہلاکت خیز پنجے گاڑ رکھے ہیں، بڑے ڈرگ لارڈز سے لے کر سڑکوں، ہوٹلوں، پارکوں، نجی محفلوں اور دیگر مقامات پر منشیات بیچنے والے معمولی کارندوں تک ایک منظم چین ہے جو دن رات موت کی سوداگری میں مشغول ہے۔
ڈرگ اسمگلرز مختلف نشوں کی بھاری کھیپ کراچی پہنچانے کیلئے زمینی، فضائی اور سمندری سمیت ہر راستہ اختیار کررہے ہیں۔ عالمی اداروں کے سرویز سے ظاہر ہے کہ دنیا بھر میں80 سے 90 فیصد تک افیون اور ہیروئن کی اسمگلنگ کا مرکز افغانستان ہے اور کراچی میں بھِی چرس اور ہیروئن کی 100 فیصد ترسیل وہیں سے ہورہی ہے۔
قانون نافذ کرنے والے مقامی اداروں کی رپورٹ کے مطابق ڈرگ اسمگلرز افغانستان سے چرس اور ہیروئن ٹرکوں، بسوں اور دیگر گاڑیوں میں چھپا کر پہلے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں پہنچاتے ہیں اور پھر مختلف ذرائع استعمال کرکے یہ کھیپ حب کے ذریعے کراچی منتقل کردی جاتی ہے۔
منشیات کی دیگر اقسام کی بات کریں تو گزشتہ چند برسوں کے دوران کراچی میں ویڈ کی مانگ میں ہوش اُرانے والا اضافہ ہوا ہے۔ متعلقہ رپورٹ بتاتی ہے کہ ملک میں اس وقت دو قسم کی ویڈ اسمگل ہورہی ہے، ایک سستی اور دوسری کافی مہنگی۔ کم قیمت ویڈ ایران سے اسمگل ہوکر پہلے بلوچستان بھیجی جاتی ہے اور پھر مختلف راستوں سے کراچی پہنچادی جاتی ہے۔
مہنگی ویڈ کا راستہ کافی پیچیدہ اور طویل ہے۔ یہ کیوبا اور کولمبیا سے مختلف ناموں کے ساتھ پہلے امریکی ریاست کیلیفورنیا میں اسٹاک ہوتی ہے اور پھر کوریئر سروس کے ذریعے کئی ملکوں اور کئی شہروں کا سفر کرکے پاکستان آتی ہے۔
مقامی سطح پر اس مہنگے اسٹاک کے مرکز اسلام آباد اور لاہور ہیں اور کراچی میں اس کی ترسیل انہی شہروں سے ہورہی ہے۔ اسی طرح کوکین اور گولیوں کی شکل میں دستیاب دیگر منشیات کی ترسیل کا ذریعہ بھی کوریئر سروس ہی ہے۔ منشیات کی بعض اقسام ایسی بھی ہیں جنہیں کیپسولز کی صورت انسانی معدوں میں اسٹاک کرکے کراچی لایا جارہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس گندے دھندے سے متعلق جب سب کچھ عیاں ہے تو متعلقہ ادارے کارروائی کیوں نہیں کرتے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے متعلقہ ادارے ٹوئنٹی فور سیون اس نیٹ ورک کو کھوجتے بھی ہیں، کارروائیاں بھِی جاری رہتی ہیں، منشیات کی چھوٹی بڑی کھیپ بھی پکڑی جاتی ہیں اور اس نیٹ ورک سے جُڑے ملزمان گرفتار بھِی ہوتے ہیں مگر مسئلہ وہی کہ اربوں ڈالر کے اس دھندے سے لاکھوں لوگ وابستہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پابلو ایسکو بار جیسے خوفناک ڈرگ لارڈ کے خاتمے کے باوجود یہ آندھی تھم نہ سکی، دس پکڑے جائیں تو بیس نئے آجاتے ہیں، ایک طریقہ نظروں میں آجائے تو دوسرا طریقہ اور ایک راستہ بند ہو تو دوسرا راستہ دریافت کرلیا جاتا ہے۔
ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کراچی کون کون سے ڈرگ پیڈلرز کے نرغے میں ہے اور وہ کس طرح شہر بھر میں منشیات کی ترسیل کررہے ہیں؟ پولیس ریکارڈ کے مطابق دیگر بڑے شہروں کی طرح کراچی میں بھِی منشیات کی ترسیل اور فروخت کا وہی سسٹم ہے کہ بڑے ڈرگ پیڈلرز پہلے مختلف قسم کی منشیات منگواتے ہیں اور پھر چھوٹے ڈیلرز اور دیہاڑی دار کارندوں کے ذریعے اسے فروخت کرتے ہیں۔
پولیس ریکارڈ یہ بھی بتاتا ہے کہ منشیات کی ترسیل کے بڑے ڈیلرز میں لاہور اور اسلام آباد سے آپریٹ کرنے والا یحییٰ سرفہرست ہے جبکہ کراچی میں اس کے پارٹنر بازل کے علاوہ دانیال منصور، سید علی شاہ زیب، نعمان عرف نومی ٹیلر، عنان شاہ جی عرف انتھریکس اور دیگر بھی شامل ہیں۔
حب سے آپریٹ کرنے والے منشیات فروشوں میں اورنگزیب بلوچ عرف ٹو ڈی بلوچ، وقاص تنولی عرف دانش تنولی، احمد شاہ عرف سردار، بھٹو اور دلاور شامل ہیں۔
کراچی کی سطح پر منشیات کی ترسیل میں فیضی اور دیگر ملزمان گرفتار ہوکر ضمانت کراچکے ہیں۔ اس گینگ سے جُڑا ایک نام عثمان سواتی کا بھی ہے جو گزشتہ سال ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوگیا تھا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ مصطفیٰ عامر کے قتل کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے اور ایک بڑے آپریشن کے نتیجے میں اس دھندے کا زور ٹوٹا ضرور مگر ختم کب ہوگا؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔
Leave a Reply