امریکا کو ’’نئے چوکیدار‘‘ کی تلاش


موجودہ ایران اسرائیل جنگ کے تناظر میں چند دن پہلے مجھے 1979کے ان ’پاکستانی پیپرز‘ کو دوبارہ دیکھنے کا موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ دراصل امریکا آخر ایران سے چاہتا کیا ہے، یہ وہی پیپرز ہیں جو تہران میں امریکی سفارت خانے سے ان ہزاروں دستاویزات کے ساتھ برآمد ہوئے تھے جو پاسداران انقلاب کے نوجوانوں نے ایمبیسی پر قبضہ کرتے وقت محفوظ کر لیے تھے،  اس بات کو آج 46سال ہو گئے ہیں۔

 ایک وقت تھا جب ایران اس خطے میں امریکاکے ’چوکیدار‘ کا کردار ادا کرتا تھا۔ ’شاہ ایران‘ کے زوال کے بعد اور بادشاہت کے خاتمے پر یہ کام کافی حد تک پاکستان نے انجام دیا جس کی بڑی وجہ روس کی افغانستان میں مداخلت تھی تاہم چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کے باعث امریکا کا اس خطے میں بظاہر کوئی قابلِ اعتماد ’ساتھی‘ نہیں خاص طور پر بھارت کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ موقف کے بعد۔ امریکا کو اس وقت کسی ایسے ہی ’چوکیدار‘ کی تلاش ہے جیسا کردار رضا شاہ پہلوی نے انجام دیا تھا۔ 

شاید یہی وجہ ہے ایران میں ’رجیم چیلنج‘ کی باتیں زور پکڑ رہی ہیں،  ایران میں کوئی تبدیلی آتی ہے یا نہیں مگر اس چیز کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ وہ اب کبھی اس دور میں واپس جا سکتا ہے۔

امریکا کا اس وقت سارا زور ایران کا ’نیو کلیئر‘ پروگرام تقریباً ختم کرنے پر ہے مگر ان مذاکرات کو اسرائیل نے حملہ کر کے ناکام بنا دیا،  عین ممکن ہےیہ سب کسی خاص سازش کا حصہ ہو مگر جو جواب ایران نے دیا اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود، اس نے اسرائیل اور امریکاکو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ 

ایک ملک جو چالیس سال سے اقتصادی پابندیوں میں رہ رہا ہے، اس کا اتنا مقابلہ کرنا ہی دنیا کیلئے حیران کن ہے، ایسے حالات میں بات ’رجیم چینج‘ کی طرف جا سکتی ہے،  ایران میں بڑی تعداد میں سیاسی قوتیں ہیں جو موجودہ رجیم کے خلاف ہیں مگر اس وقت ’ایران‘ ایک ہے جب تک جنگ جاری ہے۔

1979ءکے پاکستانی پیپرز میں اس وقت خاصا دباؤ پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام ترک کرنے پر نظر آتا ہے اور اس وقت کے وزیر اعظم یعنی1977ءکے مارشل لا سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کے انکار پر بات رجیم چینج تک چلی گئی اور بھٹو مخالف تحریک کے حوالے سے امریکی سفارتخانے سے یہاں تک ٹیلی گراف گیا کہ ’پارٹی از اوور‘ جس کا بہرحال بھٹو نے بھرپور جواب دیا پارلیمنٹ میں بھی اور پنڈی بازار میں بھی کہ پارٹی از ناٹ اوور۔ 

بہرکیف رجیم چینج ہو گیا یہاں تک کہ بھٹو کو پھانسی بھی ہو گئی مگر مارشل لا حکومت نے بھی پروگرام ترک نہ کیا اس سے پہلے کے مزید دباؤ آتا، روس کی افغانستان میں مداخلت سے پاکستان امریکا کی مجبوری بن گیا،  امریکی ڈالرز کی ریل پیل بھی رہی اور ایٹمی پروگرام بھی جاری رہا تاہم اس جنگ میں ہماری مداخلت کے کئی منفی اثرات بھی ہم پر پڑے جو شاید آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔

 ایران میں اس حوالے سے کوئی بنیادی تبدیلی نظام میں تو نہیں آئی مگر جیسا کے عام طور پر ہر انقلاب کے بعد دیکھنے کو ملتا ہے ایران کے کئی سرکردہ رہنما اندرونی جنگ یا اختلافات کا شکار ہوئے یہاں تک کے ایرانی پارلیمنٹ بھی بم دھماکے سے اڑا دی گئی جس میں اسپیکر ہاشمی رفسنجانی جیسے رہنما شہید ہوئے۔ 

بائیں بازو کے پارٹی رہنما بھی ٹارگٹ ہوئے حالانکہ ایرانی انقلاب کی ابتدا انہوں نے ہی شاہ کے خلاف بغاوت سے کی تھی مگر جب ایران، عراق جنگ چھڑ گئی تو ایک بار پھر ایرانی قوم متحد ہو گئی جنگ تقریباً سات سال جاری رہی جس کی اپنی سیاسی وجوہات بھی ہیں،  تاہم ایران اس بحران سے بھی نکل آیا۔

 ایک وقت ایسا بھی آیا جب ایران میں پاسدارانِ انقلاب اور ایرانی رجیم مخالف مجاہدین خلق کے درمیان پراکسی وار پاکستان تک پہنچ گئی اور یہاں کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جس میں ٹارگٹ کلنگ بھی ہوئی، ایران امام خمینی کے زمانے سے ’مرگ بر امریکہ، مرگ بر اسرائیل‘ کا نعرہ لگاتا رہا ہے مگر فلسطینی کاز اس وقت کمزور پڑگیا جب روس تقسیم ہوا اور دنیا ایک سپر پاور امریکا کے زیر اثر آ گئی بعد کے حالات بتاتے ہیں کہ وہ تمام ممالک جو فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے رہتے تھے ایک ایک کر کے تباہ کر دئیے گئے اور خود ایران پر اقوام متحدہ کے ذریعے امریکا نے سخت پابندیاں لگادیں جو آج تک موجود ہیں اور جس کے نتیجے میں پاکستان، ایران گیس پائپ لائن منصوبہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا شام، لیبیا، لبنان، عراق میں ہونے والی تباہی نے فلسطینی کاز کو شدید نقصان پہنچایا۔

حالیہ مہینوں میں حماس اور حزب اللہ کے سرکردہ رہنماؤں کی شہادت نے اسرائیل مخالف مزاحمت بھی خاصی کمزور کردی نتیجے میں آج غزہ میں اسرائیل کی’’ننگی جارحیت‘‘ جاری ہے امریکا کی خاموش حمایت کے ساتھ تاہم ایک بڑی اور مثبت تبدیلی یہ آئی کہ سعودی عرب اور ایران کی قربت سے امید پیدا ہوئی جس کا بڑا کریڈٹ چین کو جاتا ہے۔

 خود سعودی عرب میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں،  ایک اور بڑی تبدیلی ترکیہ میں بھی آئی جس کے ایک زمانے میں اسرائیل سے تعلقات قریبی تھے، چین نے افغانستان کی صورتحال میں بھی اہم کردار ادا کیا جس کی تازہ مثال سی پیک کو افغانستان تک لےجانا ہے۔

یہ وہ عوامل ہیں جس نے امریکا کو پریشان کیا ہوا ہے لہٰذا اسرائیل کے اچانک ایران پر حملے کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے، تمام فلسطین دوست ممالک کو تباہ کرنے کے بعد واحد رکاوٹ ایران ہے مگر ایران نہ لیبیا ہے نہ شام۔ ورنہ کوئی انقلاب 45 سال برقرار نہ رہ پاتا خاص طور پر دنیا میں تنہا رہنے کے بعد بھی۔ پاکستان کیلئے بھی یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔ 

حالیہ پاک بھارت جنگ اور اسکے بعد کے تناظر میں امریکی صدر کا کردار ہمارے لیے حوصلہ افزا ضرور ہے مگر وہ ڈونلڈ ٹرمپ ہیں اس لیے ذرا احتیاط سے،  ایران اسرائیل جنگ ختم کرانے میں ہم کیا کردار ادا کرسکتے ہیں اس کا دار و مدار چین اور سعودی عرب کے موقف پر ہے، امریکاسے اچھے تعلقات اپنی جگہ مگر ’چوکیدار‘ کا رول قبول نہیں کرنا چاہئے، خاص طور پر چین کی موجودگی میں۔ امن بہرحال جنگ سے بہتر ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔



Source link

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *