اگرچہ ماضی میں بھی پاکستان اور بھارت کو ایک بار (کارگل جنگ میں) جنگ بندی پر امریکہ نے مجبور کرایا لیکن ایک عرصے سے بھارت کے رویے میں عجیب قسم کا غرور آیا ہوا تھا۔
وہ اپنے آپ کو بڑی اقتصادی اور فوجی طاقت بلکہ خطے کا چوہدری سمجھنے لگا تھا اور ماضی میں جس نے بھی کشمیر کے معاملے میں ثالثی کی بات کی تو بھارت نے اسے نہایت تکبر کے ساتھ ٹھکرا دیا، بھارت کا مؤقف رہا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کا دو طرفہ معاملہ ہے اور کسی تیسرے فریق کواس میں مداخلت کا اختیار نہیں۔
دنیا سمجھتی تھی اور بالکل ٹھیک سمجھتی تھی کہ افغانستان کے حالات بھی پاکستان اور بھارت کی پراکسی وار کی وجہ سے خراب رہتے ہیں چنانچہ باراک اوباما نے جب امریکہ کے صدر بننے کے بعد سہ فریقی (پاکستان، افغانستان اور بھارت) فورم کا اعلان کیا تو بھارت نے اس کا بہت برا منایا، بھارتی قیادت نے کہا کہ کہاں پاکستان اور کہاں انڈیا، ہمیں ان کے ساتھ نہ ملایا جائے چنانچہ بھارت کے احتجاج کے بعد امریکہ نے انڈیا کو اس سے باہر نکالا اور صرف پاکستان اور افغانستان کا فورم یعنی افپاک رہ گیا۔
اسی طرح جب عمران خان نے بطور وزیراعظم امریکہ کا دورہ کیا تو وہاں پر بھی ان کی اپیل پر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی لیکن بھارت نے یہ کہہ کر ان کی پیشکش مسترد کردی کہ کسی تیسرے فریق کا پاک بھارت معاملات سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے، حالانکہ ان دنوں ٹرمپ اور مودی بڈی بنے ہوئے تھے اور مجھے یقین ہے کہ امریکی شہہ پا کر ہی مودی نے کشمیر کی خود مختار حیثیت کو تبدیل کرکے اسے قید خانہ میں تبدیل کیا۔
جب سے مودی بھارت کا وزیراعظم بناہے اکثر بھارتیوں کے رویے میں بھی ایک تکبر آ گیا ہے۔ میں پہلی مرتبہ ۲۰۰۷ میں انڈیا گیا تھا اور ان کے رویے کو بڑا خوشگوار پایا تھا لیکن دوسری مرتبہ ٹریک مذاکرات کیلئے وہاں جانے کا اتفاق ہوا تو انکے صحافیوں اور دانشوروں کا رویہ بھی بڑا متکبرانہ بن گیا تھا۔
ایک تو ان کا رویہ بڑا متکبرانہ تھا اور دوسرے وہ آتنک واد کا ورد کرتے ہوئے مودی کی زبان بول رہے تھے کہ مقبوضہ کشمیر کو بھول جائیں اور بات کرنی ہے تو پاکستانی سائیڈ کے کشمیر پر کریں ، وہ یہ تاثر دے رہے تھے کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی کوئی حیثیت نہیں، یہ متکبرانہ رویہ مجھے اس قدر برا لگا کہ میں دیگر ساتھیوں کو ادھر چھوڑ کر تین دن پہلے واپس پاکستان آ گیا۔
اسی طرح ہمیں یاد ہےکہ کشمیر کے مسئلےپر ثالثی تو چھوڑیں وہ پہلگام واقعے کی تحقیقات کیلئے بھی نہ تو پاکستان کی پیشکش کو قبول کر رہا تھا اور نہ کسی عالمی ادارے کو بیچ میں لانے کیلئے تیار تھا، غرض اس کا تکبر انتہاؤں کو چھو رہا تھا تو دوسری طرف پاکستان چھوٹا ملک ہونے کے باوجود بڑی مشکلات سے دو چار تھا۔
صدر بائیڈن اور پھر ٹرمپ کے دور میں یہ بات ہر زبان پر تھی کہ امریکہ کی ترجیحات میں اب پاکستان شامل نہیں، اپوزیشن طعنے دے رہی تھی کہ پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہے لیکن بھارت کے تکبر اور حالیہ جارحیت نے سفارتی محاذ پر کئی حوالوں سے پاکستان کو فائدہ پہنچایا، مثلاََ امریکی صدر تسلسل کے ساتھ ذکر کر رہے ہیں کہ انہوں نے پاکستان اور انڈیا میں جنگ بندی کرائی، انکے یہ بیانات جب مودی سنتا ہے تو اس پر نہایت گراں گزرتے ہیں لیکن وہ انکار نہیں کر سکتا، یوں جس امریکہ کو وہ پاک بھارت تنازعے سے باہر رکھنا چاہتا تھا وہ خود اس کے ”کارناموں“ سے دخیل ہو گیا۔
بھارتی حکمران پاکستان کا ذکر نہایت حقارت سے کرتے ہوئے پاکستان کو معاشی اور سیاسی حوالوں سے طعنے دیا کرتے تھے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ دونوں ممالک کو برابر رکھ کر بات کرتے ہیں، بھارت کو زعم تھا کہ دنیا کے اکثر ممالک اس کا ساتھ دیں گے لیکن پاکستان کو چونکہ اب کی بار اخلاقی برتری حاصل تھی، اس لئے اسرائیل کے سوا کسی نے بھارت کا ساتھ نہ دیا، دوسری طرف چین، ترکیہ اور آذربائیجان کھل کر پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوگئے، برطانیہ متوازن رہا، عرب ممالک اگرچہ ثالثی کی کوشش کر رہے تھے لیکن جھکاؤ ان کا بھی پاکستان کی طرف اس لئے تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انڈیا بدمعاشی کررہا ہے اور پاکستان کا مؤقف اصولوں پر مبنی ہے، دوسری طرف بھارت نے پہلی کارروائی میں معصوم شہریوں کے ساتھ ساتھ دو مساجد کو بھی شہید کیا اور اسکی وجہ سے بھی مسلمانوں کا جھکائو پاکستان کی طرف ہو گیا۔
سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی اب کشمیر کا ذکرکررہے ہیں اور یوں انڈیا کے خیال میں دفن ہونے والا مسئلہ کشمیر بھی دوبارہ عالمی سطح پر اجاگر ہوا، پہلے صرف پاکستان یہ کہتا رہا کہ کشمیر دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان فلیش پوائنٹ ہے لیکن اب دنیا نے خود دیکھ لیا کہ خاکم بدہن کسی بھی وقت مسئلہ کشمیر ایٹمی جنگ کا باعث بن سکتا ہے۔
جنگ بھارت نے چھیڑی تھی اور شکست بھی اسے ہوئی، پاکستان نے بھارت کے زیراستعمال دنیا کے بہترین جہاز رفال سمیت 6 جہازوں کو گرا دیا، اس کے برعکس پاکستان کے تمام طیارے محفوظ رہے۔ اسی طرح پاکستان نے روسی ساختہ ایس ۴۰۰ کے میزائل سسٹم کو ناکارہ بنا دیا، سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے مواصلاتی نظام کو جام کردیا، اسے دیکھ کر اب دنیا یہ جان گئی کہ پاکستان نہ صرف ایٹمی طاقت ہے بلکہ روایتی جنگ میں بھی خطے میں اس کا کوئی ثانی نہیں، یوں عالمی سطح پر پاکستان کی عزت و تکریم میں اضافہ ہو گیا۔
داخلی محاذ پر یہ فائدہ ہوا کہ وقتی طور پر سہی لیکن اس جنگ نے پاکستانی قوم کو یک جان کر دیا، حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتیں بھی افواج پاکستان کی پشت پر کھڑی ہوئیں، چند لوگوں کو چھوڑ کر مجموعی طور پر پاکستان تحریک انصاف نے بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور اس کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کی فوج کے حق میں تقاریر مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کی تقاریر کی طرح رہیں، انہوں نے اپنے اس طرز عمل سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو سیاست اور ریاست کا فرق سمجھا دیا، اس پر بیرسٹر گوہر اور پی ٹی آئی کی قیادت خراج تحسین کی مستحق ہے۔
اس سب کچھ کے باوجود پاکستانی قیادت کا امتحان ختم نہیں بلکہ شروع ہوا ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ خارجہ محاذ پر اس کامیابی کے اثرات کو کس طرح سمیٹتی ہے اور داخلی محاذ پر قومی یکجہتی کو کس طرح سیاسی محاذ پر دائمی اور سیاسی یکجہتی میں بدل دیتی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
Leave a Reply