یہ ظلم کیوں؟


چونکہ فاٹا کے مرجر کے وقت کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے گئے اور نتیجتاً وہاں کے لوگوں نے اسکے ثمرات نہیں سمیٹے اس لئے اب بعض حلقوں کی جانب سے اسکے خلاف آواز یں اٹھائی جارہی ہیں حالانکہ مرجر کے وقت وہاں کے لوگوں نے ایف سی آر کے کالے قانون سے نجات پر خوشیاں منائی تھیں۔ 

حقیقت یہ ہے کہ فاٹا مرجر صرف جے یوآئی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے منشور میں شامل نہیں تھا (وہ بھی اسٹیٹس کو کی بجائے الگ صوبہ چاہتے تھے) باقی تمام جماعتوں مثلاً مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، اے این پی ، جماعت اسلامی اور آفتاب شیرپاؤ صاحب کی جماعت کے منشوروں میں پختونخوا کے ساتھ فاٹا کا انضمام شامل تھا۔ 

اے این پی اور جماعت اسلامی جیسی تنظیموں نے تو اس کیلئے جدوجہد بھی کی تھی،  تاہم یہ نکتہ سرتاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ میں بھی شامل تھا اور اسے تمام بڑی جماعتوں نے تسلیم کیا تھا کہ ضم ہونے والے اضلاع کو ہر سال ڈویژیبل پول میں سے تین فی صد اگلے دس سال تک دیے جائیں گے لیکن آج تک یہ وعدہ ایک سال کیلئے بھی پورا نہیں کیا گیا ۔ 

انضمام کے فوراً بعد پی ٹی آئی حکومت میں آئی لیکن اس نے این ایف سی کا اجلاس نہیں بلایا تاکہ فاٹاکیلئے وہ تین فی صد حصہ (اس وقت کے حساب سے تقریبا ایک سو دس ارب روپے ) الاٹ کئے جائیں ،  دوسری طرف انضمام سے قبل آپریشنوں اور دہشت گردی کے نتیجے میں قبائلی اضلاع کا معاشی اور سماجی ڈھانچہ تباہ ہو چکا تھا ۔

 اب جب ایک طرف وہاں تباہ حالی تھی اور دوسری طرف مرکز کی طرف سے حسب وعدہ ڈویژیبل پول سے تین فی صد نہیں دیے گئے تو لوگوں کی زندگی مزید اجیرن ہوگئی،  ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان علاقوں میں اہل ترین افسر بھیجے جاتے لیکن الٹا جس افسر کو سزا دینا مقصود ہوتا اسے وہاں تعینات کر دیا جاتا۔

 وفاقی حکومت کی طرف سے ہر سال چند ارب روپے قبائلی علاقوں کیلئے مختص کردئیے جاتے رہے لیکن عملاََ ان کا بیس فی صد بھی کسی سال خرچ نہیں ہوا ، کچھ بندوبستی علاقوں میں خرچ ہوتے اور کچھ سکیورٹی کی مد میں چلے جاتے،  اب قبائلی علاقوں کو ایک طرف عسکریت پسندی کا سامنا ہے اور دوسری طرف قبائلی عوام معاشی تباہ حالی سے گزر رہے ہیں ۔

 ملٹری آپریشنوں سے قبل وہاں کے عوام کا ذریعہ روزگار یا تو افغانستان کے ساتھ تجارت تھی یا پھر ا سمگلنگ لیکن افغانستان کے ساتھ ویزے کی شرط سے لوگوں کا وہ روزگار بھی متاثر ہوا ہے ،  اب اگر انصاف کی بات کی جائے تو مرکز ،قبائلی علاقوں کا کم ازکم چھ سو ارب روپے کامقروض ہے اور توقع کی جارہی تھی کہ حالیہ بجٹ میں اس زیادتی کی کچھ نہ کچھ تلافی کی جائے گی لیکن افسوس کہ الٹا وفاقی بجٹ میں سابقہ فاٹا اور پاٹا (ملاکنڈڈویژن)  میں ٹیکس بھی لاگو کر دیا گیا حالانکہ اس وقت یہ بھی وعدہ ہوا تھا کہ پانچ  سال تک یہ علاقے ٹیکس سے مستثنیٰ رہیں گے ۔

 یقیناََ پانچ سال پورے ہوگئے لیکن اگر ان علاقوں کو وعدے کے مطابق اپنا حق دے دیا جاتا تو پھر ٹیکس کا بھی جواز بنتا تھا لیکن ایک طرف پچھلے پانچ سال میں وعدے کے مطابق ان کو رقم نہیں دی گئی اور دوسری طرف اب وہاں پر ٹیکس لاگو کر دیا گیا ۔ 

اگر وزیر خزانہ بجٹ میں قبائلی علاقوں کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کے وعدے کے مطابق چھ سو ارب دے دیتے تو پھر انکے ٹیکس لگانے کا بھی کوئی جواز ہوتا لیکن یہ کام حکومت کرسکی ہے اور نہ کرنا چاہے گی اس لئے ٹیکس کا فیصلہ واپس لینا چاہئے اور جب تک حکومت اپنے وعدوں پر عمل نہ کر لے تو ٹیکس لگانے سے گریز کرے ۔حکومت کے اس اقدام سے ضم اضلاع میں بہت منفی پیغام جائیگا اور اگر سکت ہوئی تو لوگ احتجاج بھی کرسکتے ہیں ، یہاں یہ امر بھی مدنظر رہے کہ قبائلی اضلاع میں جو رقم جاتی ہے اس میں سے کم از کم آدھی کرپشن کی نذر ہوجاتی ہے ۔

اب کی بار بجٹ میں وزیر خزانہ نے بہت تفاخرانہ انداز میں قبائلی اضلاع کیلئے ستر ارب روپے کا اعلان کیا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ سال کے آخر تک یہ ریلیز نہیں ہوں گے کیونکہ ان کیلئے آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہوتا جبکہ وفاقی حکومت کی زیادہ تر توجہ پنجاب پر ہے ۔

یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ وفاقی حکومت یہ رقم صوبے کو دینے کی بجائے خود خرچ کریگی جو کہ آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے،  قبائلی اضلاع اب خیبر پختونخوا کا اسی طرح حصہ ہیں جس طرح اٹک پنجاب کا حصہ ہے ، وہاں پر بیوروکریسی صوبے کی ہے جبکہ امن و امان بھی اب پختونخوا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ 

اس تناظر میں وہاں پر ترقیاتی کام کرنا بھی صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اگر وفاقی حکومت براہ راست وہاں پر مداخلت کرئیگی تو یہ صوبائی خود مختاری کے اصولوں سے روگردانی ہے،  بلاشبہ حکومت یہ یقینی بنائے کہ یہ رقم قبائلی اضلاع میں ہی خرچ ہو لیکن یہ کام پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے ذریعے ہی ہونا چاہئے ۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ عنقریب این ایف سی کا اجلاس کئی سال بعد بلایا جارہا ہے لیکن اسکے ایجنڈے میں قبائلی اضلاع کیلئے ڈویژیبل پول میں سے تین فی صد حصہ مختص کرنے کا آئٹم شامل نہیں ۔

 وزیراعظم سے گزارش ہے کہ وہ این ایف سی کے ایجنڈے میں اس آئٹم کو شامل کریں، دوسری بات یہ کہ غربت اور آبادی کے لحاظ سے ابھی تک قبائلی اضلاع کا آئینی حصہ جو 6اعشاریہ سات فی صد بنتا ہے ابھی تک صوبے کو ادا نہیں کیا جارہا،ایک محتاط اندازے کے مطابق ڈویژیبل پول میں یہ حصہ چار سو ارب روپے سالانہ کے لگ بھگ بنتا ہے ۔

 دوسری طرف جب قبائل کے ساتھ ڈویژیبل پول کے تین فی صد کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ سندھ اپنے حصے کی رقم نہیں دینا چاہتا لیکن سندھ ہو یا کوئی اور صوبہ اس کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ قبائلی اضلاع میں جو آگ بھڑکنے والی ہے اس سے کوئی صوبہ محفوظ نہیں رہے گا ۔ 

اس لئے یہ قبائلی اضلاع پر احسان نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے ، وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اگر این ایف سی ایوارڈ میں قبائلی اضلاع کیلئے حسب وعدہ ڈویژیبل پول کا دس فی صد مختص کردیا تو وہ قبائلی عوام کے محسن تصور ہوں گے لیکن اگر اس موقع پر بھی انہوں نے یہ کام نہیں کیا تو یہ سرتاج عزیز مرحوم کی روح کو تڑپانے اور مظلوم قبائلی عوام کی بددعائیں سمیٹنے کا موجب بنے گا ۔

 وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو بھی چاہئے کہ وہ قبائلی اضلاع کے ساتھ کئے گئے اس وعدے پر عمل کروانےکیلئے اس آئٹم کو این ایف سی کے ایجنڈے میں شامل کروانے کیلئے پورا زور لگائیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔



Source link

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *