
چین کی جانب سے نگرانی کے خوف کے باعث بھارت میں سی سی ٹی وی کیمروں سے متعلق نئے سکیورٹی قوانین نے حالیہ ہفتوں میں کیمرے بنانے والی بین الاقوامی کمپنیوں اور بھارتی ریگولیٹرز کے درمیان تنازع کھڑا کر دیا۔
غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق سرکاری دستاویزات اور کمپنیوں کے درمیان ای میلز کے مطابق اب کیمرہ ساز کمپنیوں کو ہارڈ ویئر، سافٹ ویئر اور سورس کوڈ سرکاری لیبارٹریوں میں جانچ کے لیے جمع کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
اس سکیورٹی ٹیسٹنگ پالیسی پر کمپنیوں کی جانب سے سپلائی میں تعطل اور بھاری نقصان کے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔
خبررساں ایجنسی کے مطابق ایک اعلیٰ سرکاری عہدے دار نے بتایا کہ اس پالیسی کے پیچھے چین کے نگرانی کے جدید آلات کے حوالے سے بھارت کی گہری تشویش کارفرما ہے۔
سال 2021 میں مودی حکومت کے اُس وقت کے نائب وزیر برائے آئی ٹی نے پارلیمنٹ میں بتایا تھا کہ سرکاری اداروں میں نصب 10 لاکھ کیمرے چینی کمپنیوں کے تھے اور ویڈیو ڈیٹا بیرون ملک سرورز پر منتقل ہونے کے باعث سکیورٹی خدشات پیدا ہوئے تھے۔
اپریل 2025 سے نافذ ہونے والے نئے قوانین کے تحت کیمرے بنانے والی کمپنیوں جیسے چینی کمپنیوں ہائیک ویژن، شیاؤمی اور ڈاہوآ، جنوبی کوریا کی کمپنی ہنوا اور امریکی کمپنی موٹورولا سولوشنز جیسے دیگر مینوفیکچررز کو اپنے کیمرے بھارتی حکومت کی لیبارٹریوں میں ٹیسٹ کروانے ہوں گے۔
یہ قانون انٹرنیٹ سے منسلک ان تمام سی سی ٹی وی کیمروں پر لاگو ہوتا ہے جو 9 اپریل کے بعد بنائے یا درآمد کیے گئے ہوں۔
خبررساں ایجنسی کے مطابق 3 اپریل کو بھارتی حکام نے 17 ملکی و غیر ملکی سرویلنس کمپنیوں کے نمائندوں سے ملاقات کی۔
کئی کمپنیوں نے کہا کہ وہ نئے ضوابط پر عمل درآمد کے لیے تیار نہیں تاہم انہوں نے کچھ مہلت کی درخواست کی مگر حکومت نے اسے مسترد کر دیا۔ میٹنگ کی سرکاری کارروائی کے مطابق حکومت نے مؤقف اپنایا کہ یہ پالیسی ’حقیقی سکیورٹی خدشات‘ سے متعلق ہے اور اس پر عمل درآمد ضروری ہے۔
بھارت نے دسمبر میں کہا تھا کہ یہ قوانین جن میں کسی مخصوص ملک کو نشانہ نہیں بنایا گیا، ملک میں سرویلنس سسٹمز کے معیار اور سائبر سکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے ہیں۔
کیمرہ ساز کمپنیوں کا کہنا ہے کہ محدود جانچ سہولیات، طویل فیکٹری انسپکشن اور سورس کوڈ کی جانچ سے متعلق سرکاری تقاضے منظوریوں میں تاخیر کا سبب بن رہے ہیں جس سے کاروباری منصوبے متاثر ہو سکتے ہیں۔
خبررساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ ہنوا کے جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر اجے دوبے نے 9 اپریل کو بھارتی وزات آئی ٹی کو ایک ای میل میں خبردار کیا کہ اس اقدام سے ’انڈسٹری کو لاکھوں ڈالر کا نقصان ہو گا اور مارکیٹ میں زلزلہ آ جائے گا‘۔
بھارت کے شہروں، دفاتر اور رہائشی علاقوں میں حالیہ برسوں میں لاکھوں کیمرے نصب کیے جا چکے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نئی دہلی میں ہی ڈھائی لاکھ سے زائد کیمرے لگائے جا چکے ہیں جن میں سے اکثر اہم مقامات پر نصب ہیں۔
بھارت میں گزشتہ سال سی سی ٹی وی کیمروں کی مارکیٹ کا حجم 3.5 ارب ڈالر تھا جوکہ 2030 تک 7 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔
اگرچہ بھارت میں جون 2024 سے حکومتی شعبے میں استعمال ہونے والے تمام کیمرے ٹیسٹنگ کے پابند تھے لیکن اب تمام ڈیوائسز پر اس کا اطلاق ہونے سے صورت حال زیادہ سنجیدہ ہوگئی ہے۔
ایک ریسرچ کمپنی کے مطابق بھارت میں سی سی ٹی وی کیمروں کی کل فروخت میں 27 فیصد حصہ سرکاری اداروں جبکہ 73 فیصد کاروباری اداروں، صنعتوں، ہوٹلوں اور گھریلو صارفین کا ہوتا ہے۔
نئے قوانین کے تحت کیمروں میں ٹیمپر پروف ڈیزائن، مالویئر ڈیٹیکشن اور ڈیٹا انکرپشن جیسی سکیورٹی خصوصیات ہونا لازم ہے۔
دو صنعت کاروں نے غیر ملکی خبررساں ایجنسی کو بتایا کہ کمپنیوں کو اپنے سافٹ ویئر کو خود ٹیسٹ کر کے رپورٹ سرکاری لیبز کو دینی ہوگی اور اگر ڈیوائس میں خود تیار کردہ کمیونیکیشن پروٹوکولز استعمال کیے جا رہے ہوں تو حکومتی حکام کمپنیوں سے سورس کوڈ بھی مانگ سکتے ہیں۔
ساتھ ہی یہ قوانین بھارتی حکام کو غیر ملکی فیکٹریوں کا دورہ کرکے سائبر سکیورٹی کا جائزہ لینے کا اختیار بھی دیتے ہیں۔
Leave a Reply