پنجاب حکومت اور نجی سیکٹر کے درمیان کاشتکاروں سےگندم خریدنے کا معاہدہ طے پا گیا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت گندم سے متعلق اجلاس میں بتایا گیا کہ آئندہ سال کے لیے گندم کی خریداری کا جامع پلان تیار کر لیا گیا ہے، پنجاب میں گندم کی کمی نہیں، گندم کے وافر ذخائر موجود ہیں۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ کاشتکاروں سے گندم کی خریداری کے لیے نجی سیکٹر کے ساتھ معاہدہ طے پا گیا ہے، نجی سیکٹر کاشتکاروں سے 3500 روپے من کے حساب سے گندم خریدے گا۔
اس موقع پر مریم نواز کا کہنا تھا کاشتکار ہمارے بھائی ہیں،کبھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار گندم کے کاشتکاروں کو ایک ہزار مفت ٹریکٹر دیے گئے، گندم کے کاشتکاروں کو کسان کارڈ کے ذریعے اربوں روپے کے زرعی قرضے فراہم کیے گئے، صوبے میں ہر قسم کی کھاد کنٹرول ریٹ پر وافر مقدار میں موجود ہے۔
دوسری جانب کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کو اس وقت ایک اندازے کے مطابق 15لاکھ ٹن گندم کے شارٹ فال کا سامنا ہے، اس کی بڑی وجہ گزشتہ سال صوبائی حکومت کا کسانوں سے گندم کی خریداری بند کرنا اور امدادی قیمت نہ دینا ہے، اس سال بھی امدادی قیمت نہیں دی گئی تو کاشت کار آئندہ سال گندم کی پیداوار پر توجہ نہیں دیں گے۔
کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس غلط فیصلے سے پنجاب کا کسان رُل گیا اور اسے اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا تاہم اس صورتحال کا اصل فائدہ اٹھایا مڈل مین نے، جس نےکسانوں سے 2 ہزار روپے فی من میں گندم خریدی، اب مڈل مین وہی گندم 3500 سے 4000 روپےفی من میں بیچ رہا ہے، اس طرح ذخیرہ اندوزوں نے خوب کمائی کی۔
کسان رہنما خالد کھوکھر اور فلور ملز چیئرمین عاصم رضا کا کہنا ہے کہ حکومت کی غلط پالیسیوں سے کسانوں اور فلور ملز کو تو نقصان اٹھانا پڑا، تاہم مڈل مین نے خوب فائدہ اٹھایا، اس سال ان کے ساتھ مشاورت سے فیصلے نہ کیے گئے تو گندم کی کاشت کم ہونے کا خدشہ ہے۔
انہوں نے گندم کی امدادی قیمت 4 ہزارروپے فی من سے اوپر مقرر کرنےکا بھی مطالبہ کیا۔




















Leave a Reply