’پارٹنر اِن پیس‘، پنجاب حکومت نے امن و امان کیلئے شہریوں اور اداروں سے تجاویز مانگ لیں، نمبر جاری


’پارٹنر اِن پیس‘، پنجاب حکومت نے امن و امان کیلئے شہریوں اور اداروں سے تجاویز مانگ لیں، نمبر جاری

شہری امن عامہ میں بہتری کے لیے تجاویز واٹس ایپ نمبر پر تحریری طور پر دے سکتے ہیں: محکمہ داخلہ کا مراسلہ/ فائل فوٹو

محکمہ داخلہ پنجاب نے امن و امان کے قیام کے حوالے سے غیرمعمولی مراسلہ جاری کردیا۔

مراسلے میں محکمہ داخلہ نے صوبے  بھر میں تمام اداروں اور عوام کو ’پارٹنر ان پیس‘ بننے کی دعوت دی ہے اور  سیف پنجاب وژن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اتحاد، ذمہ داری، عوامی شراکت داری کو ضروری قرار دیا۔

مراسلے میں کہا گیا ہے کہ کسی فرد یا تنظیم کو کسی صورت تشدد، قانون شکنی یا ایسے کسی اقدام کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔

اس کے علاوہ محکمہ داخلہ نے سکیورٹی کے حوالے سے تجاویز کے لیے واٹس ایپ نمبر 03114340000 بھی جاری کردیا جس پر  شہری امن عامہ میں بہتری کے لیے تجاویز واٹس ایپ نمبر پر تحریری طور پر دے سکتے ہیں۔

مراسلے کے مطابق کسی جرم، مجرم کی نشاندہی، مشکوک سرگرمی یا ایمرجنسی میں 15 پر رابطہ کریں، محکمہ داخلہ نے قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو مسلسل الرٹ رہنے کی ہدایت کی ہے۔

مراسلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں، اسپتالوں، عوامی اور مذہبی مقامات پر سخت نگرانی یقینی بنائی جائے، بروقت سکیورٹی آڈٹ سے ممکنہ واقعات کی پیشگی روک تھام ممکن ہے، تاجر برادری، مارکیٹ ایسوسی ایشنز اور صنعتی ادارے قوانین پر عملدرآمد میں معاونت کریں، امن کے عظیم تر مقصد کے حصول کے لیے تمام ادارے باہمی رابطہ اور ٹھوس تعاون یقینی بنائیں۔

مراسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ قیام امن کے لیے پنجاب سیف سٹیز کے جدید نظام سے مؤثر نگرانی یقینی بنائی جائے،  پُرامن اور ہم آہنگ معاشرے کے قیام کے لیے قوانین پر مکمل عمل درآمد ناگزیر ہے۔

محکمہ داخلہ نے آئی جی پنجاب، تمام انتظامی سیکرٹریز اور پنجاب میں وفاقی حکومت کے تمام اداروں کے سربراہان کو بھی مراسلہ جاری کیا جب کہ تمام ڈویژنل کمشنرز، سی سی پی او لاہور، ڈپٹی کمشنرز، سی پی اوز اور آر پی اوز کو بھی مراسلہ جاری کیا گیا ہے۔

اس کے علاو تمام سرکاری و نجی اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیز کے پرنسپل، ریکٹرز اور وائس چانسلرز، پنجاب کے تمام چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدور کو بھی پارٹنر ان پیس بننے کے لیے مراسلہ بھجوایا گیا ہے۔



Source link

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *