
پاکستانی ہدایتکار و اداکار یاسر حسین نے پاکستانی فلم انڈسٹری اور اس پر لگنے والی پابندیوں سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
حال ہی میں ایک انٹرویو کے دوران یاسر حسین نے کہا ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا کلچر ہے کیا؟ کیا 70 کی دہائی سے پہلے والا ہمارا کلچر ہے یا 70 کی دہائی والا؟
انہوں نے کہا کہ اگر ہم میڈم نور جہاں کی فلمیں دیکھیں تو اس میں انہوں نے آئٹم سانگ کیا جو انتہائی خوبصورت تھا، دیکھنے اور سننے دونوں میں زبردست آئٹم نمبر تھا، تو اچانک سے وہ ہمارے کلچر سے کیسے غائب ہوگیا؟ یا تو ہم نے کلچر میں شفٹ مارا ہے، یا ہم واپس پیچھے گئے ہیں۔
اداکار کا کہنا تھا کہ جو کچھ بلوچستان میں ہورہا ہے وہ وہاں کے لوگوں کے لیے انتہائی عام بات ہے لیکن اگر میں یہ ہی شارٹ فلم میں دکھانے جاؤں تو منع کردیا جاتا ہے، پابندیاں لگ جاتی ہیں کہ دنیا کو مت بتائیں یہاں کیا ہورہا ہے، ہم کون سے دور میں بیٹھ کہ دنیا سے یہ چھپانے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہاں کیا ہورہا ہے؟
یاسر نے مزید کہا کہ جاوید اقبال اتنی بڑی سچائی ہے، جیفری ڈاہمر جو امریکی سیریل کلرتھا، اس پر فلم بنتی ہے کیونکہ وہاں وہ سب عام ہے، میں نے جاوید اقبال بنائی تو اسے ایڈٹ کرواکے خراب کردیا، ہماری سچائی ہے یہ جاوید اقبال لیکن ہم اس پر فلم نہیں بناسکتے۔
اداکار کا کہنا تھا کہ مجھے پاکستانی فلموں کے اندر آئٹم نمبرز پسند نہیں کیونکہ میں جب نورا فتیحی کا آئٹم نمبر دیکھتا ہوں تو پھر میں پاکستانی نہیں دیکھ سکتا، میں کہتا ہوں اگر آئٹم نمبر فلم میں ہوں تو صحیح کے ہوں ورنہ نہ ہوں، اسی طرح کے آئٹم نمبرز ہوں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ باؤنڈریز بھی رکھنی ہیں اور ڈانس بھی کرنے ہیں۔
Leave a Reply