چھ اور سات مئی کی درمیانی شب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان پر نہیں بلکہ اپنے آپ پر حملہ کیا ہے۔ حملے کے فوراً بعد بھارتی حکومت نے ایک اعلامیے میں دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستان اور آزاد کشمیر میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا۔ 2019ء میں بھی مودی کی حکومت نے بالا کوٹ کے ایک پہاڑی مقام پر حملہ کر کے دعویٰ کیا تھا کہ دہشت گردوں کے تربیتی مرکز کو تباہ کر دیا گیا۔
اس حملے کے چند گھنٹے کے بعد جب میں حملے کی جگہ پر پہنچا تو وہاں کوئی تربیتی مرکز نہیں تھا۔ جس طرح کا جھوٹ بھارت نے 2019ء میں بولا ویسا ہی جھوٹ 2025ء میں بولا گیا۔ اس مرتبہ بھی پاکستان اور آزاد کشمیر میں میزائل حملوں کے ذریعے آٹھ بے گناہ پاکستانیوں کو شہید کیا گیا جن میں بچے بھی شامل تھے اور 35زخمیوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔ بھارت نے 22اپریل کو پہلگام میں سیاحوں پر حملے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالی اور پاکستان کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔
چھ اور سات مئی کی درمیانی شب بھارت نے پاکستان میں معصوم بچوں اور عورتوں کو شہید کرکے اپنے خلاف بہت سے ثبوت چھوڑ دیئے ہیں۔ پاکستان نے اس حملے کا فوری طور پر جواب دیا اور بھارت کے چھ جنگی طیارے مار گرائے ۔بھارت کےچار جنگی طیارے پاکستان ایئر فورس کے شاہینوں نے ڈاگ فائیٹ میں مار گرائے جبکہ دو جنگی طیارے پاکستان کے ایئر ڈیفنس سسٹم سے فائر کئے جانے والے ایچ کیو نائن میزائلوں کا نشانہ بنے۔ سات مئی کی صبح جب دن کی روشنی نمودار ہوئی تو بھارتی میڈیا نے اپنی ایئر فورس کے نقصانات دکھانے شروع کر دیئے۔ اب نریندر مودی کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ پاکستان نے ناصرف بھارت کے جنگی طیاروں کو نشانہ بنایا بلکہ لائن آف کنٹرول کے آس پاس کئی بھارتی چیک پوسٹوں اور مورچوں کو بھی تباہ کر دیا۔
پاکستان کا جواب نریندر مودی کیلئےغیر متوقع تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ کچھ سویلین علاقوں پر میزائل گرا کر اپنی فتح کا جشن منا لے گا لیکن سات مئی کے دن بھارتی میڈیا پر یہ بحث ہو رہی تھی کہ ایک ہی رات میں انکی ایئر فورس کا اتنا نقصان کیسے ہو گیا؟ پاکستان ایئر فورس نے 2019ء میں بھی بھارتی ایئر فورس پر اپنی برتری ثابت کی تھی اور اب 2025ء میں بھی بھارتی ایئر فورس پر اپنی برتری ثابت کر دی ہے۔ ظاہر ہے کہ بھارتی ایئر فورس کا وقار ایک دفعہ پھر مٹی میں مل گیا ہے اور یہ صرف بھارتی ایئر فورس کا نہیں بلکہ نریندر مودی کا سیاسی نقصان بھی ہے۔ اب وہ اس نقصان کا حساب برابر کرنے کی کوشش کریں گے۔ پاکستان نے پہل نہیں کی پاکستان نے صرف جوابی کارروائی کی ہے اور اب بھارت نے دوبارہ پاکستان کے خلاف جارحیت کی تو پہلے سے زیادہ سخت جواب ملے گا۔ کئی عالمی رہنما پاکستان اوربھارت کو باقاعدہ جنگ سے گریز کا مشورہ دے رہے ہیں۔
جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے لیکن پاکستان نے جنگ کا آغاز نہیں کیا۔ آبی جارحیت کا آغاز بھی بھارت نے کیا اور میزائل حملوں کے ذریعے سول آبادی کو نشانہ بنانے کا آغاز بھی بھارت نے کیا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ بھارت جب چاہے حملہ کرے اور جب چاہے سیز فائر کرے۔ پاکستان کو چاہئے کہ سیز فائر کو سندھ طاس معاہدے کی بحالی سے مشروط کرے۔ سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان دراصل جنگ کا آغاز تھا۔ عالمی برادری اور اقوام متحدہ بھی یہ پہلو نظراندازنہ کرے کہ سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے بعد بھارت نے پاکستان کے دریائوں کا پانی بند کرنے کا اعلان کیا۔
اگر بھارت سندھ طاس معاہدہ بحال نہیں کرتا تو پھر پاکستان شملہ معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کرے۔ شملہ معاہدے نے 1948ء کی سیز فائر لائن کو لائن آف کنٹرول میں تبدیل کیا تھا۔عالمی قوانین کے مطابق جب دو ممالک ایک دو طرفہ معاہدے میں لائن آف کنٹرول پر اتفاق کر لیتے ہیں تو پھر اس کا دفاع دونوں ممالک کی ذمہ داری ہے لیکن اگر یہ لائن آف کنٹرول ختم ہو جائے تو پھر کشمیریوں کو آرپار آنے جانے سے روکا نہیں جا سکتا۔ کشمیریوں نے اس لائن آف کنٹرول کو کبھی تسلیم نہیں کیا ماضی میں جے کے ایل ایف سمیت کئی تنظیمیں اس لائن آف کنٹرول کو توڑنے کا اعلان کر چکی ہیں اور پاکستان کو طاقت کے استعمال سے لائن آف کنٹرول کا دفاع کرنا پڑا۔
اگر شملہ معاہدہ معطل ہو جائے تو لائن آف کنٹرول بھی معطل ہوجائے گی۔ پاکستان کے پاس شملہ معاہدے کو معطل کرنے کا ٹھوس جواز موجود ہے بھارت نے 1984ء میں سیاچن کی چوٹیوں پر قبضہ کرکے شملہ معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی۔ 5 اگست 2019ء کو بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے ایک دفعہ پھر شملہ معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ سندھ طاس معاہدہ ختم کر کے بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بنائے گئے ڈیموں کے ذریعے پاکستان کی طرف آنے والا پانی بند کیا جسکے باعث مقبوضہ علاقوں میں سیلاب کا خطرہ پیدا ہوا۔ بھارت کی آبی جارحیت نے صرف پاکستان کیلئے نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کیلئےبھی خطرات پیدا کئے ہیں لہٰذا اس آبی جارحیت کو روکنے کیلئے شملہ معاہدے کی معطلی کا اعلان کوئی جارحیت نہیں بلکہ ایک دفاعی ردعمل کہلائے گا ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ اکتوبر 1947ء میں بھارتی حکومت نے برطانیہ کی ملی بھگت سے سرینگر پر فوجی قبضہ کیا تھا جس کا نتیجہ ایک جنگ کی صورت میں نکلا۔
اس جنگ کو روکنے کیلئے پاکستان نہیں بلکہ بھارت نے اقوام متحدہ سے فریاد کی تھی۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے جنگ بندی کی قرارداد منظور کی اور استصواب رائے کو مسئلہ کشمیر کا حل قرار دیا۔ بھارت نے اس قرارداد پر عمل کرنے سے انکار کر دیا مسئلہ کشمیر پر 1965ء میں پاک بھارت جنگ ہوئی پھر 1971ء کی جنگ ہوئی پھر 1999ء میں کارگل کی جنگ ہوئی اور اب ایک دفعہ پھر ایک باقاعدہ جنگ کا خطرہ موجود ہے اس جنگ میں بھارت جارح ہے اور پاکستان اپنا دفاع کر رہا ہے پاکستان اپنے کارڈ درست انداز میں کھیلے اور قومی یکجہتی کو قائم رکھے تو اس مرتبہ کشمیریوں کیلئے بہت سا ریلیف لے سکتا ہے اور 1971ء کی شکست کا بدلہ بھی لے سکتا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
Leave a Reply