مودی جی! آپ واجپائی سے ہی سیکھ لیتے


یہ درویش طویل دہائیوں سے پاک ہند دوستی، بھائی چارےا ور یگانگت کیلئے کام کر رہا ہے مگر حالیہ دنوں اس کے مشن کو جوچوٹ پہنچی وہ سیدھی سینے میں لگی، بائیس اپریل سے تاحال جو کچھ بھی ہوا ہے یہ سب ہونا نہیں چاہیے تھا مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔

 اب پہلا سوال یہ ہے کہ اس سب کا دوشی کون ہے؟ جواب چنداں مشکل نہیں،  شکایات کے انبار ہر دو اطراف ہیں، بدگمانیوں اور تلخیوں کی بھی کوئی کمی نہیں،  ‎درویش کا کام منافرتوں کی اس دو طرفہ آگ پر پانی ڈالنا ہے لیکن مجبوری و بے بسی یہ ہے کہ یہاں مخصوص مفادات کے تحت بھڑکائے گئے الاؤپر پانی ڈالنے والے تو خال خال ہیں جبکہ جلتی پر تیل چھڑکنے والےان گنت ۔جو بات بے بات لڑنے مرنے پر ایستادہ و آمادہ رہتے ہیں۔

عسکریت پسند تو رہے ایک طرف خود کو صحافی، جرنلسٹ، اینکر پرسن یا یوٹیوبر کہنے والے ہر دو خطوں کے پہلوان ایسی ایسی چھوڑ رہے ہیں کہ الامان و الحفیظ، درویش یہ سمجھتا تھا کہ ہماری پاکستانی صحافت ہنوز عالمی اسٹینڈرڈ کی میچورٹی کو نہیں پہنچ پائی لیکن ”آپریشن سندور“ کے بعد ہماری ہمسائیگی سے ’’میچور صحافت‘‘ کے جو ”نمونے“ سامنے آئے ہیں انہوں نے جھوٹ اور بدتہذیبی میں سب کو مات دے دی ہے۔

 ہماری جانب کے غیر ذمہ دار صحافیوں میں سے شاید ہی کسی نے یہ کہا ہو کہ دہلی اور ممبئی کو آگ لگا دو یا سب کچھ بھسم کر ڈالو لیکن دوسری طرف سے تو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے بھینس اپنے بچے کو جنم دے رہی ہو اور دردِ زہ کٹے کو ہو رہا ہو،  اٹھ اٹھ کے زور لگا رہے تھے کراچی کو آگ لگا دو سب کو بھسم کر ڈالو ارے بھلے مانسو! منافرت کی ایسی آگ لگاتے اور بدزبانی کرتے ہوئے کچھ تو شرم کرو، منافرت اور دشمنی میں اس قدر تو نہ گر جاؤ۔ 

ہوش و خرد والوں نے شرم دلائی تو یہ دلیل لائے کہ کیا ہوا اگر ہم نے قومی مفاد میں اتنے بڑے بڑے جھوٹ بولے؟ اپنے دیش کے خلاف تو کوئی بات نہیں کر دی،  ‎درویش ایسی صحافت اور حب الوطنی پر تین حروف بھیجتا ہے، آپ دیانتداری سے اپنے دیش کے مؤقف کو اگر درست سمجھتے ہیں یا بالمقابل ملک کے بیانیے کو غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں تو دھرور اٹھی کی طرح تہذیب، دلیل اور سلیقے کے ساتھ تنقید ضرور کریں بہتان لگاتے ہوئے بلنڈر تو نہ چھوڑیں۔

 جرمنی میں بیٹھا وہ نوجوان اگر مودی اور اس کے گودی میڈیا پر چڑھائی کرے تب تو سچا کھرا اور باصلاحیت ہے لیکن اگر آتنک وادیوں کا کچا چھٹا سامنے لائے تو بہت برا بلکہ صحافی ہی نہیں! ‎اس تین یا چار روزہ جھڑپ کے دوران صحافتی لبادے میں چھپے منافرتوں کے بیوپاری اور اپنی’’میں میں‘‘ کے فسادی ہی عیاں نہیں ہوئے ہیں۔

ہر دو اطراف کے بہت سے پولیٹیشن بالخصوص اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان لیڈران نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، مودی کس طرح تقریر کر رہے ہیں کہ ہم نے تو محض آتنک وادیوں کا حال احوال پوچھا تھا مگر تم لوگوں نے تو بھارت پر ہی حملہ کر دیا، یعنی وہ یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ وہ ادھر بارود پھینکیں گے تو جواب میں پھولوں کی مالائیں بھیجی جائیں گی۔ 

تجاہل عارفانہ سے کام لینے والے کس ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ تیسرے فریق کا اس فائر بندی میں کوئی رول نہیں ہے،  ذرا کھل کر بولیے بلکہ وائٹ ہاؤس فون ملاتے ہوئے پوچھئے کہ اے میرے لنگوٹیے متر ٹرمپ تو ہماری اس فائر بندی کا کریڈٹ کیوں لے رہا ہے جو تونےکی ہی نہیں؟ فائر بندی تو اپنے آپ ہوگئی تھی یا ہم نے خود ہی کر لی تھی تو کیوں آٹھویں بار ہماری تذلیل کر رہا ہے؟ حکمرانی پر براجمان بی جے پی آخر کیوں جھوٹ پر تلی بیٹھی ہے؟ آپ کا اتنا مہنگا رافیل گرا ہے یا پانچ اور گرے ہیں تو حقائق کا اعتراف کھلے بندوں کرنے سے کیوں کترا رہے ہو؟ پاکستان کو آپ لوگوں نے کیا ریت کی دیوار سمجھ رکھا تھا؟ اٹھتے بیٹھتےکیوں گیدڑ بھبھکیاں دیتے ہو؟ راہول گاندھی کے سارے سوالات غلط نہیں ہیں۔

 اگر آپ لوگ اپنی جنتا کو سہانے سپنے دکھاتے ہوئے بیوقوف بنانے کیلئے بھڑکاؤ بھاشن دیں گے یا غلط بیانیاں کریں گے تو پھر تلخ حقائق سامنے آنے پر سبکی بھی اٹھانی پڑے گی، یہی وجہ ہے کہ فارن سیکرٹری سے جتنی بھی تردیدیں کروائی گئی ہیں بالآخر جے شنکر کو امریکی رول کا اعتراف کرنا پڑا ہے یہ کہتے ہوئے کہ جب جنگی ماحول بنتا ہے یا جھڑپیں ہوتی ہیں تو دوست احباب پریشان ہوتے ہیں اور وہ فریقین پر فائر بندی کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں جیسے کہ ٹرمپ، سعودی عرب اور امارات جیسے دوستوں نے کیا۔ آپ لاکھ کہیں کہ ہم تھرڈ پارٹی کو دخل اندازی کی اجازت نہیں دیتے لیکن یہ ایک مہمل اور فیک دعویٰ ہے۔

 ‎مودی جی! آپ سوچئے آپ کی اتنی عزت بنی ہوئی تھی اتنا بھرم تھا آپ کا، جسے خود آپ نے اپنے بھڑکاؤ بھاشنوں سے اس قدر خراب کر لیا ہے کہ جس روز آپ نے آپریشن سندور کیا درویش کے منہ سے یہ الفاظ نکلے کہ آپ کے زوال کا آغاز ہو گیا ہے۔ آپ سوچیں کہ اب جتنا بھی آتنک واد ہوا ہے، کارگل اس سے چھوٹی گھٹنا تو نہ تھی آپ کو گاندھی اور نہرو سے نہ سہی اٹل بہاری واجپائی کے تدبر سے ہی سیکھ لینا چاہیے تھا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔



Source link

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *