
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ حکومت میں شامل لوگ درختوں کو کاٹ رہے ہیں اور ملک بھرمیں سیلابی صورتحال کے مجرم درخت کاٹنے والے ہیں۔
اسلام آباد میں آبی وسائل کے تحفظ پرسیمینار سے خطاب میں حافظ نعیم کا کہنا تھاکہ ہم پوائنٹ اسکورنگ نہیں راستے تلاش کرتے ہیں، چاہتے ہیں کہ مسائل کا حل بھی عوام کے سامنے رکھیں، ہم جانتے ہیں کہ ہمارے پاس ماہرین کی کمی نہیں دیانت کی کمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2017 میں پاکستان کو ارلی وارننگ کے لیے قرض ملنا شروع ہوا لیکن حکومتوں نے ارلی وارننگ کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کیے، ارلی وارننگ سسٹم نہ لگانے کے ذمہ داران کا تعین کیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھاکہ ہم چاہتے ہیں پانی کے بحران سے متعلق تجاویز اور حل دیں، مشکل دنوں میں بھی ہم نے اپنے دشمن کو شکست دی، پانی سے متعلق ہمیں مستقل حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھاکہ سیلاب متاثرین کی ہم مدد کرسکتے ہیں، سیلاب سے قبل کے اقدامات حکومت کو کرنے ہیں، موسمیاتی وارننگ سے متعلق ہمارے پاس آلات نہیں، حکومتوں نے کام نہیں کیا جو بونیر اور ملک کے دیگر حصوں میں ہوا اسے روکا جا سکتا تھا اور کلاؤڈ برسٹ کی بروقت اطلاعات سے انسانی جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔
انہوں نے کہاکہ اگرپہاڑوں پردرخت موجود ہوں تو دو ڈگری درجہ حرارت کم کرسکتے ہیں، درجہ حرارت کم ہونے سے کلاؤڈ برسٹ سے بچا جاسکتا ہے، حکومت میں شامل لوگ درختوں کو کاٹ رہے ہیں اور ملک بھرمیں سیلابی صورتحال کے مجرم درخت کاٹنے والے ہیں۔
حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھاکہ شمالی علاقوں میں نقصانات کے ذمہ داردرختوں کی کٹائی میں ملوث عناصرہیں، حادثہ ہو جانے کے بعد ہمارے ادارے جاگتےہیں۔
کالاباغ ڈیم کے حوالے سے کہاکہ کالاباغ ڈیم کی بات اسی لیےکی جاتی ہے تاکہ اصل مسائل سےتوجہ ہٹائی جاسکے، کالاباغ ڈیم کےحق میں حکومت کے پاس دلائل ہیں تو سامنے لائے۔
ان کا کہنا تھاکہ راوی کے راستے پر روڈا کی اتھارٹی بنادی گئی، نئی حکومت نےبھی راوی اربن ڈیویلپمنٹ منصوبےکوجاری رکھا، ایک دوسرے کا تحفظ کرنے والا مافیا ہمارے سروں پر سوار ہے، مسائل کی اصل وجہ اعتماد کی کمی اور گڈ گورننس کا بحران ہے۔
حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھاکہ عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے عیاشیاں بند کی جانی چاہییں، متنازع ڈیمز کو چھوڑ کر دوسرے ڈیمز پر کام کیا جائے، وہ نہریں جس سے صوبوں کا حق نہ مارا جائے اس کے بنانے میں کیا مسئلہ ہے؟
Leave a Reply