قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے سولر پینلز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز مسترد کردی
سید نوید قمر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا جس میں آئندہ مالی سال کے فنانس بل پر بحث کی گئی۔
اجلاس کے دوران قائمہ کمیٹی نے سولر پینل پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے اسے سختی سے مسترد کردیا۔
چیئرمین کمیٹی نوید قمر نے اجلاس کو بتایا کہ سولر پینل پر ٹیکس سے متعلق ہمارا مؤقف واضح ہے، تمام سیاسی جماعتوں نے ایوان میں سولر پر ٹیکس کی مخالفت کی۔
چیئرمین ایف بی آر نے دوران اجلاس کہا کہ اگر سولر پینل مکمل بنا ہوا امپورٹ کیا جائے تو اس پر سیلز ٹیکس نہیں لیکن اگر سولر پینلز کے پارٹ امپورٹ کرکے یہاں تیار کیا جائے تو اس پر ٹیکس ہے.
انہوں نے بتایا کہ سولر پینلز پہلے بہت مہنگے تھے لیکن اب کافی سستے ہوچکے ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ سولر پر 18فیصد جی ایس ٹی سے 20 ارب روپے آئیں گے جس پر کمیٹی چیئرمین نوید قمر نے انہیں مشورہ دیا کہ اگر پیسے ہی جمع کرنے ہیں تو اس کے اور لاکھوں طریقے ہیں۔
وزیر خزانہ محمد اور نگزیب نےکمیٹی کے چیئرمین نوید قمر کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی تجویز نوٹ کرلی گئی ہے۔
قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں ٹیکس فراڈ پر گرفتاری سے متعلق فنانس بل کی شق پر بحث کی گئی، چیئرمین ایف بی آر نے کمیٹی اجلاس میں جیو نیوز کی خبر کی بھی تصدیق کردی۔
چیئرمین ایف بی آر نے بریفنگ کے دوران کمیٹی کو بتایا کہ فنانس بل کی شق 37 اے اور 37 اے اے میں مزید ترمیم کردی گئی، ٹیکس فراڈ کی تعریف کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ٹیکس فراڈ میں ملوث شخص کے بھاگنے کا خطرہ ہو تواس کو گرفتار کیا جائے گا، ریکارڈ ٹیمپرنگ میں ملوث شخص کو 3 نوٹسز کے بعد گرفتار کیا جائے گا۔
چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ وزیر اعظم اور سینیٹ کمیٹی کی سفارش پر نیا ڈرافٹ تیار کرلیا ہے، 5 کروڑ سے کم ٹیکس فراڈ پر گرفتاری نہیں ہوگی، انہوں نے تاجروں کی گرفتار کے قانون کے حوالے سے وضاحت کی کہ تاجروں کی گرفتاری کا قانون پہلی بار نہیں لایا گیا بلکہ گرفتاری کا قانون پہلے سے موجود ہے جس میں کچھ تبدیلی کی گئی ہے۔
کمیٹی کے رکن محمد مبین عارف نے کہا کہ ترمیم کے مطابق کوئی بھی ایف بی آر افسر کہہ دے گا کہ ٹیکس فراڈ ہوا، یہ بھی سوال کیا کہ کیا گرفتاری اور انکوائری کے عمل کی کوئی ٹائم لائن مقرر کی گئی ہے؟ جس پر چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے جواب دیا کہ 6 ماہ کے دوران انکوائری مکمل کی جائے گی۔
Leave a Reply