فیلڈ مارشل کا تاریخی دورہ امریکہ


یہ پندرہ جون 2025کی سہ پہر تھی، جب واشنگٹن ڈی سی کی فضا میں کچھ خاص تھا۔ امریکی صدر کے شیڈول میں ایک غیر معمولی ملاقات درج تھی۔ وائٹ ہاؤس کی سفید دیواروں کے اندر سناٹا نہیں بلکہ تجسس تھا۔ 

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نظریں لانگ روم کی طرف تھیں، جہاں وہ شخص آنے والا تھا جسے دنیا آج پاکستان کا فیلڈ مارشل کہتی ہے، اور جو اب صرف وردی نہیں بلکہ وقار کا نشان بن چکا تھا ۔ جنرل سید عاصم منیر۔سفید لباس میں ملبوس امریکی میزبانوں کی قطار کھڑی تھی۔ لانگ روم کے دروازے کھلے، اور عاصم منیر کا قدآور، پرسکون اور پرعزم وجود اندر داخل ہوا۔ نہ اس کے قدموں میں تردد تھا، نہ نگاہوں میں خوف۔ صدر ٹرمپ مسکرائے، دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا اور کہا:I have been waiting for this moment, General.

کمرے میں جیسے ایک لمحے کو وقت تھم سا گیا۔ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان چند ہفتے قبل ہونے والے جنگی تناؤ کا پس منظر سب کے ذہن میں تھا۔ ایک طرف بھارت جو کشمیر پر جارحیت کی حدیں پار کر چکا تھا، اور دوسری طرف پاکستان جو اپنی سرحدوں کے دفاع میں شیر کی طرح کھڑا تھا۔ ایسے میں صدر ٹرمپ اور عاصم منیر کی یہ ملاقات صرف ملاقات نہ تھی، بلکہ تاریخ کا ایک نیا باب رقم ہو رہا تھا۔

دو گھنٹے تک جاری رہنے والی یہ گفتگو گواہ تھی ایک ایسے مکالمے کی، جس میں صرف دو ملکوں کے تعلقات کا ذکر نہ تھا، بلکہ پوری دنیا کا توازن داؤ پر تھا۔ عاصم منیر نے اعتماد سے کہا:جناب صدر، ہم امن چاہتے ہیں، مگر اپنی عزت پر کوئی سودے بازی نہیں کریں گے۔ اگر بھارت نے دوبارہ جارحیت کی، تو اس کا جواب ویسا ہوگا جو دنیا نے مئی میں دیکھا۔ٹرمپ نے اثبات میں سر ہلایا۔ ان کی آنکھوں میں سنجیدگی تھی۔میں نے سنا ہے کہ آپ نے خود میدان میں موجود رہ کر اپنے سپاہیوں کی قیادت کی؟فیلڈ مارشل منیر نے مختصر جواب دیا:ہم اپنے سپاہیوں سے پیچھے نہیں رہتے، اسی لیے ہمارے سپاہیوں کےحوصلے ہمیشہ بلند رہتے ہیں۔

اسی دوران ایرانی تنازع پر بات ہوئی۔ فیلڈ مارشل نے دو ٹوک لہجے میں کہا:ایران کی سلامتی بھی ہمارے لیے اہم ہے۔ اگر ہم وہاں قیام امن میں کردار ادا کر سکتے ہیں تو ہمیں کرنا چاہیے۔صدر نے فیلڈ مارشل کے موقف کو سراہا اور کہا بلاشبہ آپ ایران کو زیادہ بہتر جانتے ہیں۔

جیسے ہی ملاقات ختم ہوئی، وائٹ ہاؤس سے باہر موجود پاکستانی نژاد امریکیوں کا جم غفیر نعرے بلند کر رہا تھا:‘‘Long Live Pakistan! Long Live Asim Munir!’’، اور دوسری طرف بھارتی میڈیا بے حال تھا۔نیودہلی میں جب یہ خبر پہنچی، تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت سکتے میں آچکی تھی، جس کے بعد فیلڈ مارشل اور امریکی صدر کی ملاقات کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے شروع کر دیئے گئے، الزام لگایا گیا کہ امریکہ نے پاکستان سے ایران کے خلاف جنگ کیلئے اڈے طلب کیے ہیں ایک جھوٹی مہم شروع کردی گئی، فیلڈ مارشل اور امریکی صدر کی ملاقات سے پورے بھارت میں جیسے صفِ ماتم بچھ گئی ہو۔ سوشل میڈیا پر بھارتی عوام سوال اٹھا رہے تھے:ہمارا وزیراعظم کہاں ہے؟ پاکستان کا جنرل وائٹ ہاؤس میں ہے، اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟

زی ٹی وی اور انڈیا ٹوڈے جیسے چینلز پر اینکرز چیخ چیخ کر کہتے رہے:یہ پاکستان کی جیت ہے، ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی!اور یہ سچ تھا۔اس دوران جاپان، آسٹریلیا اور یورپی یونین نے امریکی صدر کو خراجِ تحسین پیش کیا کہ اُنہوں نے دو ایٹمی طاقتوں کے بیچ امن قائم رکھنے میں کردار ادا کیا۔ کئی حلقوں نے باقاعدہ مطالبہ کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل امن انعام دیا جائے۔ اس موقع پر امریکی صدر نے بھی کہا:اگر انکے اقدام سے دنیا محفوظ ہوئی، تو شاید میں بھی اس اعزاز کا حقدار ہوں۔

پاکستان کے فیلڈ مارشل اور امریکی صدر کی اس ملاقات سے جو وقار اُبھرا، وہ صرف ایوانوں تک محدود نہیں رہا۔ دبئی، لندن، کوالالمپور، جدہ، دوحہ اور ٹورنٹو میں پاکستانیوں نے جشن منایا۔ نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر لکھا:آج پہلی بار لگا کہ ہم عالمی طاقت کا حصہ ہیں، اور دنیا ہماری بات سنتی ہے۔

ایران کے عوام کیلئے بھی امید کی کرن تھی۔ تہران سے ایک پروفیسر نے سوشل میڈیا پر لکھا:اگر پاکستان اور امریکہ مل کر امن کی راہ نکال رہے ہیں، تو ہمیں یقین ہے کہ ایران بھی اس مشکل گھڑی سے نکل آئے گا۔

واشنگٹن سے لاہور تک، اسلام آباد سے نیویارک تک، سب کی زبان پر ایک ہی بات تھی: یہ صرف ایک ملاقات نہیں، پاکستان کیلئے عالمی سطح پر عزت کا اعزاز تھا۔اور بھارت؟ وہ اب بھی وضاحتیں دے رہا ہے، سفارتی زخم چاٹ رہا ہے، اور اپنے عوام کو تسلی دے رہا ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ فیلڈ مارشل کی پرعزم موجودگی نے بھارت کی تمام سیاسی اور سفارتی منصوبہ بندی کو مات دے دی۔یہ ملاقات پاکستان کی طاقت، وقار، اور قیادت کا استعارہ تھی۔ اب دنیا یہ ماننے پر مجبور ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہے، اور اس کے جنرل صرف میدان جنگ میں نہیں، سفارتی ایوانوں میں بھی فاتح بن کر ابھرتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔



Source link

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *