
اسلام آباد: عدالت عظمیٰ نے 9مئی کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کے جلاؤگھیراؤ اور دہشت گردی میں ملوث سویلین ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق مقدمہ کے فیصلے میں جسٹس جمال خان مندوخیل اورجسٹس نعیم اختر افغان کا اختلافی نوٹ جاری کردیا گیا ہے۔
36 صفحات پر مشتمل مشترکہ نوٹ کو جسٹس جمال مندوخیل نے قلمبند کیا، اختلافی نوٹ میں دونوں ججوں نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے وزارت دفاع کی اپیلیں مسترد کردیں اور قراردیا ہے کہ فوج کا کام ملک کا دفاع کرنا ہے نہ کہ عدلیہ کے فرائض سر انجام دینا۔
اختلافی نوٹ میں ججز نے لکھا کہ عدلیہ کا اختیار کسی انتظامی ادارے کو نہیں دیا جاسکتا، اگر فوج عدلیہ کے فرائض سر انجام دینے لگی تو لوگوں کا اس پر اعتماد قائم نہیں رہے گا، قرآن اور نبی آخر الزمان ﷺ نے بھی آزادعدلیہ کا درس دیا۔
ججز نے فیصلے میں لکھا کہ فوجی عدالتی نظام کا مقصد نظم، اخلاقیات اور ڈسپلن کو فروغ دینا ہے، ملٹری لاء صرف سزا نہیں بلکہ فوجی نظم و ضبط کا جامع نظام ہے، عدالت کے لئے آئین کے تحت شہریوں کے بنیادی حقوق پر سمجھوتہ ممکن نہیں ہے، تقسیم ہند سے قبل بھارتی فوج ʼانڈین آرمی ایکٹ 1911ʼ کے تحت چلتی تھی اور یہ ایکٹ فوجیوں کے حقوق و فرائض اور نظم و ضبط کی وضاحت کرتا تھا۔
اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ فوجی عدالتیں صرف فوجی اہلکاروں کے خلاف محدود دائرہ اختیار رکھتی تھیں،کورٹ مارشل صرف ان معاملات میں ہوتے تھے جو فوجی خدمات سے متعلق ہوتے تھے، صرف فوجی نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر ہی کورٹ مارشل کیا جا سکتا تھا۔
اختلافی نوٹ میں مزید قراردیا گیا ہے کہ انتظامیہ اور عدلیہ دو الگ الگ چیزیں ہیں، قرآن اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آزاد، غیر جانبدار عدلیہ کا درس دیا ہے جبکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ نے عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ رکھا تھا، پاکستان میں بھی اسلامی تعلیمات کو قرارداد مقاصد کا حصہ بنایا گیا ہے، آئین میں ان ہی تعلیمات کے تحت عدلیہ کو آزاد رکھا گیاہے، عدلیہ کا اختیار کسی انتظامی ادارے کو نہیں دیا جا سکتا۔
Leave a Reply