فلیٹ سے 3 خواتین کی لاشیں ملنے کا معاملہ، متاثرہ فیملی ڈیڑھ کروڑ روپے سے زائد کی مقروض


کراچی: فلیٹ سے 3 خواتین کی لاشیں ملنے کا معاملہ، متاثرہ فیملی ڈیڑھ کروڑ روپے سے زائد کی مقروض

بیٹے نے جوس میں نیند کی گولیاں لیں جس کی وجہ سے اس کی طبیعت خراب ہوئی: پولیس۔ فوٹو فائل

کراچی کے علاقے گلشن اقبال کے فلیٹ سے 3 خواتین کی لاشیں ملنے کے واقعے کی تحقیقات جاری ہیں اور تاحال خواتین کی موت کی وجہ سامنے نہیں آ سکی ہے۔

پولیس کی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ گھر کے سربراہ محمد اقبال کی جانب سے اطلاع دی گئی تھی اور ابتدائی طور پر یہ چیز سامنے آئی کہ گھر میں گیس بھرنے کی وجہ سے خواتین کی موت واقع ہوئی لیکن جب پوسٹ مارٹم کیا گیا تو پتہ چلا کہ ایک لاش پولیس کو اطلاع ملنے والے روز سے بھی دو روز پرانی تھی۔

حکام کے مطابق گھر سے یاسین نامی شخص بھی نیم بے ہوشی کی حالت میں ملا تھا جسے اسپتال منتقل کیا گیا، جب گھر کے سربراہ کے بیٹے یاسین سے پوچھ گچھ کی گئی تو وہ بھی بیان دینے کے حوالے سے تذبذب کا شکار نظر آیا، پھر پولیس کی جانب سے معاملہ مشکوک قرار دیکر گھر کے سربراہ اقبال اور ان کے بیٹے یاسین کو حراست میں لے لیا گیا۔

اس حوالے سے پولیس سرجن نے بھی جیو نیوز کو بتایا کہ یہ کافی پیچیدہ نوعیت کا کیس ہے اور خواتین کے ساتھ نیم بے ہوشی میں ملنے والے نوجوان کے خون میں بھی کچھ ایسی مشکوک چیزیں پائی گئیں جس سے ان کی موت واقع ہوئی۔

اس کے علاوہ پولیس حکام کا کہنا ہے دوران تفتیش یہ چیز بھی سامنے آئی کہ گھر کا سربراہ محمد اقبال مبینہ طور پر جادو ٹونے کا کام بھی کرتا ہے، پولیس کی جانب سے معاملے کی ہر پہلو سے تفتیش کی جا رہی ہے۔

پولیس کے مطابق متاثرہ فیملی نے ڈیڑھ کروڑ روپے سے زائد کا قرض لیا ہوا ہے، گھر اور ایک گاڑی بھی کرائے پر لی ہوئی ہے۔ یاسین پراپرٹی کا کام کرتا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ والد کے پاس سے ایک خط ملا جس کی جانچ کی جا رہی ہے، والد اور بیٹے کو حراست میں لیا ہوا ہے۔

پولیس کے مطابق خواتین کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعدموت کی وجہ سامنے آس کے گی تاہم یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملنے والی 3 لاشوں میں سے ایک خاتون کی لاش 2 روز پرانی تھی۔

یاد رہے کہ 3 روز قبل کراچی کے علاقے گلش اقبال کے مطابق فلیٹ سے ماں، بیٹی اوربہو کی لاشیں ملی تھیں۔  گھر کے سربراہ محمد اقبال نے خود ون فائیو پر فون کر کے اطلاع دی اور ابتدائی تفتیش میں معاملہ مشکوک پایا گیا۔



Source link

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *