
امریکا کی وفاقی عدالت کے جج نے فلسطین نواز طالب علم محمود خلیل کو ضمانت پر رہائی کا حکم دے دیا۔
تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ محمود خلیل کو آئس لیوزینا کے حراستی مرکز سے آج رہائی مل سکے گی۔
محمود خلیل کولمبیا یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں اورامریکا میں قانونی طور پر مستقل رہائش پزیر ہیں۔ انہیں حکام نے104 سے لیوزی اینا میں زیر حراست رکھا ہوا ہے۔
جج نے تسلیم کیا کہ محمود خلیل کی گرفتاری فلسطین کے حق میں ان کی تقریر کی وجہ سے کی گئی۔ اپریل میں ان کے بیٹے کی پیدائش ہوئی تو انہیں اس وقت بھی اہلیہ اور نومولود سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور کولمبیا میں اپنی گریجویشن میں شرکت کا موقع بھی نہیں دیا گیا تھا۔
وفاقی عدالت کے جج نے محمود خلیل کی رہائی کے پچھلے ہفتے بھی احکامات دیے تھے تاہم حکومت کی جانب سے اس الزام پر کہ خلیل نے گرین کارڈ کی درخواست جمع کرانے کے موقع پر جھوٹ بولا تھا، ان کی حراست برقرار رکھنے کا حکم دے دیا تھا۔
اب وفاقی جج اس بات پر متفق تھے کہ محمود خلیل کی گرفتاری کولمبیا کے مین ہٹن کیمپس مظاہرے میں ان کے کردار پر حکومت کا غیرقانونی ردعمل تھا۔دوگھنٹے تک جاری سماعت کے اختتام پر جج فربیارز نے کہا کہ اس دلیل میں کچھ بات ہے کہ محمود خلیل پر امیگریشن سے متعلق الزام سزا کے طور پر استعمال کیاجائے اور یقینی طور پر یہ عمل غیرآئینی ہے۔
وفاقی عدالت کے حکم کے باوجود محمود خلیل کی فوری رہائی اس لیے واضح نہیں کہ لیوزی اینا کے جج نے انہیں ضمانت دینے سے انکار کیا ہوا ہے اور کہا ہے کہ حکومت کے ایک اور الزام کے تحت محمود خلیل کی امریکا سے جبری بے دخلی ممکن ہے۔
یاد رہے کہ محمود خلیل شام کے شہری ہیں اور انہیں حماس کی حمایت میں سرگرمیوں کی قیادت کے الزام میں مارچ میں گرفتار کیا گیا تھا۔
محمود خلیل کولمبیا یونیورسٹی میں فلسطین نواز سرگرم کارکن تھے اور غزہ پراسرائیلی حملےکے خلاف پچھلے سال طلبہ کے مظاہروں میں پیش پیش تھے۔
Leave a Reply