سعودی عرب کی پالیسی میں بڑی تبدیلی، تیل کی جگہ شمسی توانائی کی طاقت بن کر ابھرنے لگا


سعودی عرب کی پالیسی میں بڑی تبدیلی، تیل کی جگہ شمسی توانائی کی طاقت بن کر ابھرنے لگا

کبھی فوسل فیول کا مترادف سمجھا جانے والا یہ ملک اب اپنے وسیع صحراؤں کو سولر پینلز سے ڈھانپ رہا ہے۔ فوٹو فائل

اسلام آباد: سعودی عرب نے شمسی توانائی کی طرف بڑا قدم اٹھاتے ہوئے 2030 تک 130 گیگاواٹ ہدف مقرر کر دیا۔

تیل کی قدیمی میراث رکھنے والا سعودی عرب اب اپنی پالیسی میں بڑی تبدیلی لا کر دنیا میں ابھرتی ہوئی شمسی توانائی کی طاقت بن رہا ہے۔ کبھی فوسل فیول کا مترادف سمجھا جانے والا یہ ملک اب اپنے وسیع صحراؤں کو سولر پینلز سے ڈھانپ رہا ہے، جو قابلِ تجدید توانائی کی طرف ایک جرات مندانہ اور حکمتِ عملی پر مبنی قدم ہے۔

کبھی مہنگی اور غیر معتبر سمجھی جانے والی شمسی توانائی اب دنیا کی سب سے سستی اور تیز ترین متبادل توانائی کے ذرائع میں سے ایک ہے، جو بڑھتی ہوئی بجلی کی طلب پوری کرنے کے لیے موزوں ترین آپشن ہے۔ 

سعودی عرب میں 2024 میں شمسی پیداوار 4340 میگاواٹ  تھی تاہم 2030 تک 50 فیصد بجلی قابلِ تجدید توانائی سے پیدا کی جائے گی۔

دی وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق کئی بڑے سولر منصوبے جاری ہیں یا مکمل ہو چکے ہیں، یہ تبدیلی صرف ماحولیاتی خدشات نہیں مضبوط معاشی وجوہ پر کی جا رہی ہے۔ 

سرکاری سرمایہ کاری فنڈ (PIF) کی معاونت سے ACWA پاور جیسے بڑے ادارے اس مہم کی قیادت کر رہے ہیں۔ ان کے بڑے منصوبوں میں1.5گیگاواٹ سودیر سولر پراجیکٹ شامل ہے، جو خطے کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔ 

2024 تک سعودی عرب کی شمسی توانائی کی پیداواری صلاحیت 4340میگا واٹ تک پہنچ گئی، جو 2023 میں 2585 میگاواٹ تھی۔کئی بڑے سولر منصوبے جاری ہیں یا مکمل ہو چکے ہیں، جن کے ٹینڈر ٹوٹل انرجیز اور ای ڈی ایف جیسے عالمی اداروں کو ملے۔ 

ACWA پاور اور آرامکو پاور کی 8.3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے ذریعے 15گیگاواٹ شمسی و ہوا منصوبے لگائے جا رہے ہیں۔ مجموعی ہدف 2030 تک 130 گیگا واٹ شمسی و ہوا توانائی ہے۔ 

چین کی بدولت سولر پینلز اور بیٹری اسٹوریج کی قیمتوں میں کمی نے شمسی توانائی کو انتہائی سستا بنا دیا ہے۔ حالیہ نیلامیوں میں سعودی عرب نے بجلی کی قیمت 1.3 سینٹ فی کلو واٹ آور سے بھی کم رکھی، جو تیل سے پیدا ہونے والی بجلی سے سستی ہے۔ تیل پر مبنی بجلی پیداوار سعودی عرب کو سالانہ تقریباً 20 ارب ڈالر کا نقصان کر رہی ہے۔ 

شمسی توانائی سے ناصرف پیسوں کی بچت ہوگی بلکہ خام تیل کو برآمد کے لیے محفوظ کیا جا سکے گا۔ ریگستانی آب و ہوا، شدید گرمی اور ریت کے طوفان سولر پینلز کی کارکردگی کم کر سکتے ہیں۔ 

دنیا کا تیل دارالحکومت سمجھے جانے والا یہ ملک اب اپنے شہروں، صنعتوں اور مستقبل کو سورج کی روشنی سے چلانے کے راستے پر گامزن ہے۔ 



Source link

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *