
نئی دہلی: بھارت نے اپنی شمال مشرقی سرحد تک رسائی بہتر بنانے کے لیے ایک بڑے ریلوے انفراسٹرکچر منصوبے کی منظوری دی ہے۔
اس منصوبے کا مقصد دور دراز علاقوں تک رسائی کو بہتر بنانا، لاجسٹکس کو تیز کرنا اور پڑوسی ملک چین کے ساتھ تعلقات میں کسی بھی ممکنہ بگاڑ کی صورت میں فوجی تیاریوں کو یقینی بنانا ہے۔
امریکی جریدے بلوم برگ نے باخبر ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اس منصوبے کے تحت چین، بنگلا دیش، میانمار اور بھوٹان کی سرحد سے متصل دور دراز علاقوں کو ملانے کے لیے 500 کلومیٹر طویل ریلوے لائنیں بچھائی جائیں گی، جن میں پل اور سرنگیں بھی شامل ہیں۔
بلومبرگ کے مطابق اس منصوبے پر حکومت کے 300 ارب بھارتی روپے ( یعنی 3.4 ارب ڈالر) لاگت آنے کا امکان ہے اور توقع ہے کہ یہ منصوبہ 4 سال کے اندر مکمل ہو جائے گا۔
اگرچہ چین کے ساتھ تعلقات میں حال ہی میں بہتری کے آثار نظر آئے ہیں، لیکن بھارت کی یہ حکمت عملی طویل مدتی منصوبہ بندی کی عکاسی کرتی ہے۔ 5 سال قبل ہونے والے سرحدی تصادم کے بعد، دونوں پڑوسی ممالک اقتصادی مواقع اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں بدلتی ہوئی تجارتی صورتحال کے باعث اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بلومبرگ کا کہنا ہے کہ یہ نئے ریلوے کوریڈورز گزشتہ دہائی میں تعمیر کیے گئے سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے کو مزید تقویت دیں گے، بھارت نے اب تک 1.07 ٹریلین روپے کی لاگت سے 9 ہزار 984 کلومیٹر طویل شاہراہیں تعمیر کی ہیں جبکہ مزید 5 ہزار 55 کلومیٹر کی شاہراہیں زیر تعمیر ہیں۔
اس لاجسٹک اپ گریڈ سے سرحدی علاقوں تک رسائی کو بہتر بنانے اور قدرتی آفات یا فوجی نقل و حرکت جیسی ہنگامی صورتحال کے دوران جوابی کارروائی کے وقت کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ بھارت نے اپنے شمال مشرقی علاقوں میں ہیلی کاپٹر اور فوجی طیاروں کے استعمال کے لیے 1962 سے غیر فعال ایڈوانس لینڈنگ گراؤنڈز جیسے ہوائی اڈوں کے انفراسٹرکچر کو بھی دوبارہ فعال کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ شمالی لداخ کے متنازع سرحدی علاقے کے قریب اضافی ریلوے لائنوں کے لیے بھی بات چیت جاری ہے۔
بلومبرگ کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے حساس علاقوں میں بہتر رابطے اور رسائی کو ترجیح دی ہے، جس میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ 1450 کلومیٹر طویل نئی سڑکوں کی تعمیر اور ڈوکلام کے قریب اپ گریڈیشن شامل ہے۔ اس سال کے شروع میں انہوں نے وادی کشمیر کو ملک کے باقی حصوں سے ملانے والے دنیا کے بلند ترین ریلوے پل کا بھی افتتاح کیا تھا۔
دوسری جانب چین نے بھی 2017 میں ڈوکلام پر ہونے والے فوجی تنازع کے بعد سے اپنے انفراسٹرکچر کی تعمیر کو تیز کر دیا ہے جس میں ہوائی اڈے اور ہیلی پورٹس جیسے انفراسٹرکچر کی تعمیر شامل ہے۔
اس توسیع نے پیپلز لبریشن آرمی کی لاجسٹکس کی صلاحیتوں کو مزید مضبوط کیا ہے جس سے آلات اور فوجیوں کی تیزی سے نقل و حرکت ممکن ہوئی ہے۔
Leave a Reply