
ایران کا جوہری پروگرام 1950 کی دہائی میں شروع ہوا، 1990 کی دہائی میں عالمی برادری کو شک ہوا کہ ایران خفیہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے 2003میں پہلا معائنہ کیا جس میں ایران کی جوہری سرگرمیوں کا انکشاف ہوا۔
2006 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان اور جرمنی نے مذاکرات کا آغاز کیا۔
2015 میں جامع معاہدہ جے سی پی او اے طے پایا جس کے تحت ایران نے یورینیم کی افزودگی صرف 3.67 فیصد تک محدود رکھنے ، افزودہ یورینیم کا ذخیرہ کم کرنے اور آئی اے ای اے کو اپنی جوہری تنصیبات کی مکمل نگرانی کی اجازت دی۔
آئی اے ای اے کے مطابق 2015 تک ایران نے شفافیت دکھائی ۔ پھر جب 2018 میں امریکا معاہدے سے نکل گیا تو ایران نے آہستہ آہستہ یورینیم افزادگی بڑھانا شروع کر دی اور 2021 کے بعد 60 فیصد تک پہنچا دی ۔
آئی اے ای اے نے 2021 تا 2025 کے دوران شکوک ظاہر کرتے ہوئے عدم تعاون کی شکایات کیں ۔ 2025 کے اوائل میں ایک نیا سفارتی عمل شروع ہوا تاکہ معاہدے کی بحالی ممکن بنائی جا سکے۔
اس حوالے سے مذاکرات کے 5 دور ہوچکے تھے اور چھٹا دور 13 سے 15 جون کو عمان میں شیڈول تھا۔
12 جون 2025 کو آئی اے ای اے کی رپورٹ سامنے آئی کہ ایران جوہری بریک آؤٹ پوائنٹ کے قریب ہے ۔ اس کے اگلے روز ہی 13 جون کو اسرائیل نے ایران پر حملہ کر دیا جس میں ایران کے 6 جوہری سائنس دان ، ایرانی آرمی چیف ، پاسداران انقلاب کے سربراہ اور ایئرو اسپیس کے سربراہ شہید ہو گئے۔
بین الاقوامی نیوز ایجنسی کے مطابق اس کے بعد بھی مزید 8 ایٹمی سائنس دان مختلف حملوں میں مارے جا چکے ہیں جب کہ 2 جنرل ، پاسداران انقلاب کے انٹیلے جنس سربراہ اور ڈپٹی کمانڈر بھی شہید ہو ئے ہیں۔
اس سے پہلے2009 میں ایران کے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر مسعود علی محمدی، 2010میں ڈاکٹر مجید شہریاری ،2011 میں داریوش رضائی اور 2020 میں ایران کے ایٹمی پروگرام کے ماسٹر مائنڈ محسن فخری زادہ کو بھی مارا جا چکا ہے ۔
ایران کے ایٹمی پلانٹس اور متعلقہ تنصیبات کتنی اور کہاں ہیں؟
ایران کے مختلف شہروں میں 6 بڑے ایٹمی مراکز ہیں جن میں نطنز اور فردو یورینیم کی افزودگی کرتے ہیں ۔اراک ہیوی واٹر ری ایکٹر تھا جس پر اسرائیل نے 19 جون کو حملہ کیا ۔
بوشہر ایران کا واحد نیوکلیئر پاور پلانٹ ہے ۔ اصفہان میں یورینیم کنورژن سینٹر ہے لشکر آباد میں ایٹمی تجرباتی سینٹر ہے ۔ ایرانی ایٹمی تنصیبات پر اب تک کئی سائبر یا دیگر حملے ہو چکے ہیں ۔
2010 میں اسٹکس نیٹ وائرس نے نطنز کے سینٹری فیوجز کو تباہ کیا۔ 2020 میں نطنز میں دھماکا ہوا جسے تہران نے تخریب کاری قرار دیا۔ 2021 میں ایک اور حملہ ہوا جس سے بجلی کا نظام درہم برہم ہوا۔
ایران نے ان حملوں کے اسرائیل پر الزامات لگائے ۔
اسرائیل نے 13 جون سے اب تک ایران کے 5 ایٹمی پانٹس یا تنصیبات نطنز، اصفہان، ارک، خنداب اور فردو کو پھر سے نشانہ بنایا ہے ۔
Leave a Reply