
الخدمت فاؤنڈیشن نے 15 موبائل ہیلتھ یونٹ، 50 ایمبولینسز، ایک کروڑ مالیت کی ادویات، ایک ہزار خیمے، 5 ہزار ترپال سمیت امدادی سامان پر مشتمل ٹرک لائن آف کنٹرول اور متاثرہ علاقوں میں روانہ کر دیے۔
حالیہ جنگی صورتحال کے پیش نظر الخدمت فاؤنڈیشن کی ریسکیو اور ریلیف سرگرمیوں کے حوالے سے ہنگامی پریس بریفنگ ہوئی جس میں الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل سید وقاص جعفری، اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اکرام الحق سبحانی اور دیگر نے شرکت کی۔
اس موقع پر سید وقاص جعفری نے بتایا کہ حالیہ ہنگامی صورتحال اور سویلین آبادی پر جارحیت کے نتیجے میں الخدمت فاؤنڈیشن نے فوری اور مؤثر اقدامات کا آغاز کر دیا، الخدمت فاؤنڈیشن نے ملک بھر میں اپنے 41 الخدمت رسپانس سینٹرز کو اپڈیٹ کر دیا ہے جبکہ جنوبی پنجاب، وسطی پنجاب، لاہور اور آزاد کشمیر کے چار بڑے ریجنز سمیت مرکزی سطح پر وار کرائسز منیجمنٹ سیلز قائم کیے جا چکے ہیں تاکہ ہنگامی صورتحال میں فوری اور منظم ردعمل دیا جا سکے۔
انہوں نے بتایاکہ الخدمت فاؤنڈیشن نے 15 موبائل ہیلتھ یونٹ، 50 ایمبولینسز، ایک کروڑ مالیت کی ادویات، ایک ہزار خیمے، 5 ہزار ترپال سمیت امدادی سامان پر مشتمل ٹرک لائن آف کنٹرول اور متاثرہ علاقوں کی جانب روانہ کر دیا۔
اکرام الحق سبحانی کا کہنا تھاکہ الخدمت فاؤنڈیشن حکومتِ پاکستان، افواجِ پاکستان، نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (NDMA)، پروونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹیز (PDMAs) اور ریسکیو 1122 کے ساتھ مکمل ہم آہنگی اور رابطے میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ایک ٹریننگ پروگرام بھی ترتیب دیا جا رہا ہے جس میں ہر عمر کے افراد کو ہنگامی صورتحال سے نمٹنے اور بطور شہری فعال کردار ادا کرنے کے لیے تربیت دی جائے گی، اگر خدانخواستہ صورتحال مزید بگڑتی ہے اور اندرونِ ملک نقل مکانی کا خدشہ بڑھتا ہے تو الخدمت فاؤنڈیشن عارضی خیمہ بستیاں قائم کرے گی اور متاثرہ افراد کے لیے نقل و حمل کی سہولیات بھی فراہم کی جائیں گی۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد زاہد لطیف نے کہا کہ الخدمت فاؤنڈیشن نے الخدمت کے 57 اسپتالوں کو ہنگامی حالات کے پیش نظر تیار کر لیا جہاں 30 فیصد بیڈز کو جنگی حالات کے لیے مختص کر دیا گیا ہے، الخدمت نے 1 کروڑ روپے کی ادویات متاثرہ علاقوں کی طرف بھجوا دی ہیں جبکہ پہلے مرحلے میں مزید 10 کروڑ روپے مالیت کی ادویات خریدرہے ہیں تاکہ ادویات کا ذخیرہ اپڈیٹ کر لیا جائے اور ضرورت کے وقت فوری فراہمی ممکن ہو۔
Leave a Reply