
اسلام آباد ہائیکورٹ کی فل کورٹ میٹنگ سے پہلے ہائیکورٹ کے جج جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز نے چیف جسٹس ہائیکورٹ سرفراز ڈوگر کو خطوط لکھے ہیں۔
جسٹس بابر ستار نے اپنے 4 صفحات پر مشتمل خط میں لکھا کہ کیا اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں؟کیا اسلام آباد ہائیکورٹ نے ضلعی عدلیہ کو آزاد ادارہ بنانے کی کوشش کی؟
انہوں نے کہا کہ روسٹر کی تیاری، کیسز فکس کرنے میں شفافیت کی کمی ہے، کیسز فکس کرتے وقت سینئر ججز کو نظر انداز کرکے ایڈیشنل ججز کو کیسز بھیجے جارہے ہیں، کیا ججز اور چیف جسٹس کو یاد نہیں رکھنا چاہیے وہ بادشاہ نہیں عوامی عہدیدار ہیں۔
جسٹس بابر ستار نے خط میں لکھا کہ آپ کا آفس کچھ کیسز میں کاز لسٹ بھی جاری کرنے سے انکاری ہے جس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو رہی ہے، سینئر ججز کو انتظامی کمیٹی سے رولز کی خلاف ورزی میں الگ اور ایڈیشنل اور ٹرانسفر ججز کو شامل کیا گیا۔
خط میں مزید کہا گیا ہےکہ آپ نے ججز کے بیرون ملک جانے کے لیے این او سی لینا لازمی قرار دیا گویا ججز کو ای سی ایل پر ڈالا گیا، ادارے بنانے میں دہائیاں لگتی ہیں تباہ کرنے میں کچھ وقت نہیں لگتا۔
جسٹس بابر ستار کی جانب سے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے نام ججز کے خط کی کاپیاں تمام ججز اور رجسٹرار کو بھجوائی گئیں۔
Leave a Reply