اسلام آباد : ذرائع نے بتایا ہے کہ ہائیکورٹ کے کچھ جج صاحبان اپنے عہدے سے مستعفی ہونے پر غور کر رہے ہیں لیکن وہ یہ قدم اس وقت تک نہیں اٹھائیں گے جب تک ان کی مدتِ ملازمت اتنی نہ ہو جائے کہ وہ تاحیات پنشن اور ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے اور اپنے خاندان کیلئے سہولتوں کے حق دار بن سکیں۔
اندرونی ذرائع کے مطابق متعلقہ ججز کیلنڈر پر نظر رکھے ہوئے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ صرف اس وقت استعفیٰ دیں جب وہ کم از کم 5 سالہ سروس مکمل کر لیں۔
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے مطابق ہائیکورٹ کا کوئی جج صرف اسی صورت پنشن اور دیگر بعد از ریٹائرمنٹ سہولتوں کا اہل بنتا ہے جب اس نے بینچ پر کم از کم 5 سال کیلئے خدمات انجام دی ہوں۔
سپریم کورٹ اس سے پہلے واضح کر چکی ہے کہ ہائیکورٹ کا جج پنشن اور اس سے متعلقہ فوائد کیلئے تبھی اہل ہو گا جب وہ کم از کم 5 سال عدالت میں خدمات سرانجام دے۔ یہ مدت پوری کیے بغیر استعفیٰ دینے کا مطلب ان سہولتوں سے محرومی ہے۔
ذرائع کے مطابق، کچھ ججز جو قبل از وقت ریٹائرمنٹ پر غور کر رہے ہیں، انہوں نے عدالتی انتظامیہ کے سینئر افسران سے مشاورت کی ہے تاکہ یہ جان سکیں کہ کیا ایسی کوئی نظیر موجود ہے کہ کسی جج کو 5 سال مکمل کیے بغیر پنشن دی گئی ہو۔
اطلاعات کے مطابق، انہیں ایک ایسا کیس بتایا گیا لیکن یہ بھی کہا گیا کہ ان کے معاملے میں یہ مثال لاگو نہیں ہوتی۔ یہ ایک ایسے جج کا کیس ہے جنہوں نے ہائیکورٹ میں ترقی پانے سے قبل ضلعی عدلیہ میں طویل عرصہ خدمات انجام دی تھیں۔ عدالتی نظام میں ان کی مجموعی سروس کو مدِنظر رکھتے ہوئے انہیں بعد از ریٹائرمنٹ سہولتیں دے دی گئیں حالانکہ انہوں نے ہائی کورٹ بینچ پر پانچ سال پورے نہیں کیے تھے۔
ایک قانونی ذریعے نے انکشاف کیا کہ افسران نے ان پر واضح کیا ہے کہ ایسی نظیر ان ججز پر لاگو نہیں ہو گی جو براہِ راست بار یا دیگر ذرائع سے ہائیکورٹ میں آئے ہوں اور ان کے پاس کوئی سابقہ عدالتی سروس نہ ہو۔
یہ پیشرفت ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب اعلیٰ عدلیہ میں ممکنہ استعفوں کے بارے میں قیاس آرائیاں بڑھ رہی ہیں، یہ افواہیں متنازع 26ویں آئینی ترمیم کے بعد گردش میں آنا شروع ہوئیں۔
تاحال کسی جج نے باضابطہ استعفیٰ نہیں دیا، تاہم اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ چند ماہ میں کچھ ججز مستعفی ہو سکتے ہیں، بالخصوص وہ جو 5 سال کی مدت کے قریب پہنچ رہے ہیں۔




















Leave a Reply