پولیس فورس پر ایک مؤثر اور بیرونی نگرانی ناگزیر ہے، سپریم کورٹ


پولیس حراست میں تشدد کا کیس: پولیس فورس پر ایک مؤثر اور بیرونی نگرانی ناگزیر ہے، سپریم کورٹ

زندگی کا حق سب سے اعلیٰ انسانی حق ہے، آئین ریاست پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ ہر شہری کے حق زندگی کا تحفظ کرے اور حراستی تشدد اور قتل کو روکے: تحریری فیصلہ۔ فوٹو فائل

سپریم کورٹ نے پولیس حراست میں تشدد سے متعلق کیس کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ تشدد کسی بھی صورت جائز نہیں، بعض اوقات پولیس کی جانب سے تشدد ماورائے عدالت قتل کا باعث بنتا ہے۔

پولیس کی حراست میں ملزمان پر تشدد اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف کیس کا فیصلہ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل بینچ نے سنایا، 7 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے تحریر کیا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تشدد، غیر انسانی یا توہین آمیز سلوک، جن میں ذاتی وقار کی پامالی شامل ہے، کسی بھی صورت میں جائز نہیں، بعض اوقات پولیس کی جانب سے تشدد ماورائے عدالت قتل کا باعث بنتا ہے کیونکہ پولیس عملی طور پر استثنیٰ کے مفروضے کے تحت مبینہ مجرم کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے اس عمل کو روکنے کے لیے پولیس فورس پر ایک مؤثر، خصوصی اور بیرونی نگرانی ناگزیر ہے، زندگی کا حق سب سے اعلیٰ انسانی حق ہے، آئین ریاست پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ ہر شہری کے حق زندگی کا تحفظ کرے اور حراستی تشدد اور قتل کو روکے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ غیر قانونی حراست، گرفتاری، بربریت، تشدد اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف یہ آئینی ضمانتیں بنیادی اور قانونی اصولوں کی اساس ہیں، غیر قانونی حراست اور تشدد کسی بھی صورت میں ناتو پسندیدہ ہیں اور ناہی قابلِ جواز ہیں۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بنیادی حقوق کا اصول ایک محفوظ اور منصفانہ معاشرے کو یقینی بنانا ہے، پولیس فورس قانون کی محافظ اور آئین میں درج بنیادی حقوق کے فریم ورک کو برقرار رکھنے کی پابند ہے۔

عدالتی فیصلے میں لکھا ہے کہ پولیس ہر شخص کی جان، آزادی اور وقار کے تحفظ کی ذمہ دار ہے، قانون پر عمل کیے بغیر کسی شخص کو نقصان پہنچانا بنیادی حقوق اور شفاف ٹرائل کے حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے، پولیس کو قانون کی خلاف ورزی کرنے والےکو گرفتار کرنے کا حق حاصل ہے لیکن گرفتاری آئین و قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئینی و قانونی تقاضوں کے برخلاف گرفتاری، غیر انسانی رویہ اپنانا، ظلم یا تشدد کرنا مجرمانہ فعل ہے، غیر انسانی رویہ اپنانا، ظلم یا تشدد کرنا مجرمانہ فعل مس کنڈکٹ میں بھی شمار ہوتا ہے۔

عدالت نے فیصلے میں بتایا کہ سپریم کورٹ سے رجوع کرنے والے درخواست گزاران پنجاب پولیس کے ایک منظم ادارے کے اہلکار تھے، ان درخواست گزاران کی ملازمت کی شرائط متعلقہ پولیس قوانین اور 1975 کے قواعد کے تحت ہیں، موجودہ کیس میں زریاب خان کی غیر قانونی حراست، بدسلوکی اور تشدد کے الزامات تھے۔

فیصلے کے مطابق یہ الزامات درخواست گزاران کے خلاف بطور پولیس اہلکار لگائے گئے تھے، زریاب خان کو غیرقانونی طور پر حراست میں رکھ کر تشدد کے ذریعے، درخواست گزاران نے اپنے اس فرض کی خلاف ورزی کی، درخواست گزاران کا یہ عمل اختیارات کے غلط استعمال کے مترادف ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس اہلکاروں کو نوکری سے نکالنےکی محکمانہ کارروائیاں قانون کی حکمرانی، ریاستی اداروں پر اعتماد کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہیں، عدالت نے سزائیں برقرار رکھتے ہوئے اپیلیں خارج کر دیں، آئین کا آرٹیکل 10 کسی شخص کی گرفتاری، حراست کے حوالے سے حفاظتی ضمانتیں فراہم کرتا ہے۔

عدالت کے فیصلے میں لکھا ہے کہ کوئی بھی گرفتار شخص اس وقت تک حراست میں نہیں رکھا جا سکتا جب تک کہ اسے اس کی گرفتاری کی وجوہات سے آگاہ نہ کر دیا جائے، گرفتار شخص کو 24گھنٹوں میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جانا ضروری ہے۔

تین رکنی بینچ کے فیصلے میں یہ بھی تحریر کیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 14 کے مطابق انسان کی عزت نفس اور قانون کے تابع گھرکی پرائیویسی کی پامالی نہیں ہو سکتی۔

خیال رہے کہ عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلہ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے تین پولیس کانسٹیبلوں کی اپیلوں پر جاری کیا، تینوں افراد پر زریاب خان نامی شخص کو غیر قانونی حراست میں رکھنے، اسے قتل کرنے کا الزام تھا۔

نوکری سے برخاست کرنے کے محکمانہ کارروائی کے فیصلے کے خلاف پنجاب سروس ٹربیونل سے درخواست گزاروں نے رجوع کیا تھا، پنجاب سروس ٹریبونل نے ان کو نوکری سے برخاست کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا جبکہ نوکری سے برخاست کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھی۔



Source link

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *