
امریکی نشریاتی ادارے سی این این میں شائع مضمون میں کہا گیا ہےکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دوسرے دور صدارت میں امریکی سفارت کاری کے اصول بدل دیے ہیں جن سے پاکستان نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔
مصر کے شہر شرم الشیخ میں غزہ جنگ بندی کے بعد عالمی رہنماؤں کے سامنے ٹرمپ نے آرمی چیف سید عاصم منیر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں اپنا پسندیدہ فیلڈ مارشل قرار دیا۔
اس کے بعد ٹرمپ نے پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کو اظہار خیال کرنے کا موقع دیا تو انہوں نے اعلان کیا کہ وہ ایک بار پھر ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کریں گے۔
مضمون نگار کے مطابق ایک سال قبل تک ایسے مناظر کا تصور بھی مشکل تھا۔ واشنگٹن نے طویل عرصے تک پاکستان سے فاصلہ رکھا ہوا تھا، مختلف وجوہات کے ساتھ پاکستان کا چین کا قریبی حلیف ہونا بھی امریکی مفادات کے لیے چیلنج تھا۔
ٹرمپ نے امریکی سفارت کاری کے اصول بدل دیے
ٹرمپ سے قبل سابق امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنی صدارت کے دوران پاکستان کے کسی بھی وزیراعظم سے رابطہ نہیں کیا اور 2021 میں افغانستان سے امریکا کے انخلا کے بعد انہوں نے پاکستان کو دنیا کا خطرناک ملک قرار دے کر مزید دوریاں پیدا کیں، لیکن ٹرمپ دوسری بار جب اقتدار میں آئے تو انہوں نے امریکی سفارت کاری کے اصول بدل دیے۔ اب پرانے دوست دور ہوگئے اور مخالفین کے پاس اگر امریکا کو دینے کے لیے کچھ تھا تو انہیں قریب کرلیا۔
مضمون نگار کے مطابق پاکستان نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
پاکستانی قیادت کو وائٹ ہاؤس میں خوش آمدید کیا جارہا ہے اور اُنہیں وہ تلخ باتیں سننے کو بھی نہیں ملی ہیں جو ٹرمپ دیگر عالمی رہنماؤں سے کہتے ہیں۔ امریکی دفاعی کمپنی ریتھیون کو پاکستان کو ایمریم میزائل فروخت کرنے کی اجازت مل گئی ہے اور پاکستان نے درآمدی ٹیرف پر بھی کامیاب مذاکرات کیے ہیں اور بھارت سمیت اپنے دیگر ہمسائیوں کے مقابلے میں کم ٹیرف حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ سب پاکستان نے دو طریقوں سے حاصل کیا ہے، ایک تو قیمتی معدنیات تک ترجیحی رسائی کی پیشکش اور دوسرا امریکی صدر ٹرمپ کی تعریف کرکے۔
مضمون نگار کے مطابق پاکستان کی سفارت کاری کو جہاں اندرون ملک خوب سراہا جا رہا ہے، وہیں نظر انداز کیے جانے پر بھارت میں غصے کی لہر ہے، جس کو روسی تیل کی خریداری کے باعث بھاری امریکی ٹیرف کا بھی سامنا ہے۔
فیلڈ مارشل پاک بھارت جنگ کے بعد سے عالمی توجہ کا مرکز بن گئے
پاکستان اور امریکا کے درمیان ان بڑھتے ہوئے تعلقات میں اہم کردار فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا ہے جو کہ مئی میں ہونے والی پاک بھارت جنگ کے بعد سے عالمی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔
جنگ کے دوران دنیا کو خدشہ ہوا کہ یہ لڑائی یہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے، جس پر ٹرمپ نے دونوں ممالک کو جنگ بندی پر آمادہ کرنے کی کوشش کی اور جب جنگ بندی ہوئی تو انہوں نے اس کا سہرا اپنے سرلیا اور پاکستان نے بھی اس دعوے کی بھرپور توثیق کی اور ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔
دوسری جانب بھارت نے سختی سے انکار کیا کہ ٹرمپ نے جنگ بندی میں کوئی کردار ادا کیا ہے اور کہا کہ یہ معاملہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تھا۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے مئی کی جھڑپوں میں بھارتی فضائیہ کے 7 طیارے مار گرائے تھے ، ٹرمپ بارہا اس بات کو دہرا چکے ہیں جب کہ بھارت نے کبھی اس بات کو قبول نہیں کیا۔
جنگ بندی کے چند دن بعد جب فیلڈ مارشل عاصم منیر نے وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ظہرانے میں ملاقات کی تو وہ بغیر کسی سول حکومت کے نمائندے کے امریکی صدر سے ملنے والے پہلےپاکستانی آرمی چیف تھے۔
‘ٹرمپ کو فاتح پسند ہیں، ہارنے والے پسند نہیں’
امریکا میں مقیم مصنف اور تجزیہ کار شجاع نواز نے سی این این کو بتایا کہ ٹرمپ کو فاتح پسند ہیں اور وہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ انہیں ہارنے والے پسند نہیں ہیں،غالباً انہوں نے فیلڈ مارشل عاصم منیر میں ایک ایسا فاتح دیکھا جو فوری فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایشیا پیسیفک فاؤنڈیشن کے سینیئر فیلو مائیکل کوگلمین کے مطابق موجودہ عالمی صورتحال پاکستان کے لیے فائدہ مند ہے، خاص طور پر اس کے جغرافیائی محل وقوع اور خطے کے اہم فریقوں کے ساتھ قریبی روابط کے باعث۔ پاکستان کی ایران کے ساتھ نسبتاً ہموار سفارتی پالیسی نے بھی امریکا کی نظر میں پاکستان کو ایک اہم کھلاڑی بنایا ہے جو واشنگٹن کا پیغام تہران تک پہنچا سکتا ہے۔
پاکستان ماضی میں بھی امریکا کے لیے سفارتی ثالث کا کردار ادا کر چکا ہے۔ 1971 میں اسلام آباد سے ہی سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے بیجنگ کے خفیہ دورے کا بندوبست کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں امریکا اور چین کے تعلقات معمول پر آئے۔
پاکستان کا سب سے بڑا کارڈ کیا ہے؟
تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کا سب سے بڑا کارڈ وہ نایاب معدنیات (ریئر ارتھ) ہیں جن کی دنیا کو اشد ضرورت ہے، یہ معدنیات اسمارٹ فونز، ایم آر آئی مشینز اور جدید ترین جنگی طیاروں میں استعمال ہوتی ہیں۔ اربوں ڈالرز کے معدنی وسائل کے ساتھ پاکستان نے خود کو ایک متبادل مرکز کے طور پر پیش کیا ہے جس نے ٹرمپ کی توجہ حاصل کر لی ہے۔
Leave a Reply