جادو کا ہر بہترین کرتب 3 مراحل پر مشتمل ہوگا۔
پہلا مرحلہ وہ ہوتا ہے جب جادوگر کچھ عام ظاہر کرتا ہے مگر وہ عام ہوتا نہیں، دوسرے مرحلے میں جادوگر اس عام کام کو غیرمعمولی بنادیتا ہے۔
اور تیسرا مرحلہ اس کرتب کا راز ہوتا ہے جو آپ دریافت نہیں کرپاتے اور اسے ہی تھرڈ یا فائنل ایکٹ کہا جاتا ہے۔
ہالی وڈ کے معروف ڈائریکٹر کرسٹوفر نولان کے کیرئیر کے آغاز کی وہ بہترین فلم جو ذہن گھما دینے والے نشیب و فراز سے بھرپور ہے مگر بیشتر افراد کو اس کا علم نہیں۔
یہ فلم ڈائریکٹر کی بیٹ مین کردار پر بنائی جانے والی فلموں کے درمیان ریلیز ہوئی اور اسی وجہ سے زیادہ توجہ کا مرکز نہیں بن سکی۔
2006 میں ریلیز ہونے والی دی پریسٹیج نامی اس فلم میں 1890 کی دہائی کا زمانہ دکھایا گیا ہے اور دیکھنے والے کو ایسی چونکا دینے والی کہانی ملتی ہے جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔
2 جادوگروں کی مسابقت اتنی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ کسی بھی طرح ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پلاٹ
1890 کی دہائی میں ابھرے ہوئے جادوگر رابرٹ اینیگر (ہیوگ جیک مین) اور الفریڈ بورڈن (کرسٹین بیل) ایک جادوگر ملٹن کے اسسٹنٹس کے طورپر کام کر رہے وتے ہیں۔
رابرٹ کی بیوی جولیا ملٹن کی آن اسٹیج اسسٹنٹ ہوتی ہے اور ایک واٹر ٹینک ٹِرک کے دوران وہ اس وقت ڈوب کر مر جاتی ہے جب الفریڈ اسے ایک پیچیدہ گرہ سے باندھ دیتا ہے۔
الفریڈ کا دعویٰ ہوتا ہے کہ اسے گرہ باندھنے کا طریقہ یاد نہیں جبکہ رابرٹ بیوی کی موت کا الزام الفریڈ پر عائد کرتا ہے اور وہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔
ایک دوسرے کا دشمن بننے سے قبل وہ تفریح اور لوگوں کو کچھ نیا دکھانے کے لیے ہر حد کو عبور کرنا چاہتے ہیں اور دونوں کا اپنا انداز ہوتا ہے، الفریڈ بورڈم خطرے مول لینے والا ہے اور ناممکن کے حصول کے لیے کچھ بھی کرنے سے نہیں ڈرتا۔
اس کے مقابلے میں رابرٹ اینیگر ایک شومین ہوتا ہے جو محفوظ رہتے ہوئے آگے بڑھنے کو ترجیح دیتا ہے۔
مگر جولیا کی موت کے بعد دونوں ایک دوسرے کو ہر چیز میں پیچھے چھوڑ دینے کے جنون کا شکار ہو جاتے ہیں۔
دونوں ایک دوسرے کو تباہ کرنے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھتے ہیں جب تک الفریڈ پر رابرٹ کے قتل کا الزام نہیں لگ جاتا۔
مگر کیا واقعی الفریڈ نے وہ قتل کیا ہوتا ہے یا وہ بھی ایک منفرد جادوئی دھوکا ہوتا ہے؟
اس سے زیادہ تفصیل میں جاننے سے فلم کی پوری کہانی کھل کر سامنے آجائے گی اور اسے دیکھنے کا لطف ختم ہو جائے گا۔
فلم سے جڑے چند دلچسپ حقائق
اس فلم کی کہانی مکمل ہونے میں 5 سال کا عرصہ لگا۔
یہ کہانی ایک ناول پر مبنی تھی جو 1995 میں شائع ہوا تھا اور جب کرسٹوفر نولان اسے فلم کے لیے تحریر کر رہے تھے، تو اس دوران وہ ایک اور فلم Insomnia کی ایڈیٹنگ میں مصروف ہوگئے، جس پر انہوں نے اپنے بھائی جوناتھن نولان کی خدمات حاصل کیں۔
دونوں بھائی اس پر سست روی سے کام کرتے رہے اور 5 سال میں جاکر اسے مکمل کیا، انہوں نے ناول کی کہانی میں تبدیلیاں کی تھیں اور کہانی کے اندر ایک اور کہانی کو شامل کرکے اس کا پلاٹ کافی پیچیدہ اور ذہن الجھا دینے والا بنا دیا۔
جیسا اوپر درج کیا گیا ہے کہ جادو کے کرتب کے 3 مراحل ہوتے ہیں تاکہ لوگوں کی آنکھوں کو دھوکا دیا جاسکے اور کرسٹوفر نولان نے اس کا اسکرپٹ ان تینوں مراحل کی عکاسی کو مدنظر رکھتے ہوئے تحریر کیا۔
یہی وجہ ہے کہ فلم کا اختتام دیکھنے والوں کو سر کھجانے پر مجبور کردیتی ہے اور وہ کئی بار اسے دیکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
کہانی کی طرح فلم کی تیاری بھی کرسٹوفر نولان کی ایک اور فلم کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئی۔
Insomnia مکمل کرنے کے بعد ڈائریکٹر دی پریسٹیج کو بنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔
مگر اسٹوڈیو وارنر برادرز نے بیٹ مین فرنچائز کو نئی زندگی دینے کا فیصلہ کیا اور کرسٹوفر نولان کو Batman Begins کی ہدایات دینے کے لیے منتخب کیا۔
بیٹ مین فلم کی ریلیز کے بعد ڈائریکٹر نے پھر دی پریسٹیج پر کام شروع کیا۔
فلم کے سیٹس کو کرسٹوفر نولان کے گیراج میں ڈیزائن کیا گیا۔
ویسے تو فلم جادوگروں کے گرد گھومتی ہے مگر فلم میں حقیقی جادوگر محض ایک ہی تھا اور وہ تھا رکی جے نامی کردار، جسے ایک ناقص جادوگر دکھایا گیا تھا۔
یہ کردار ادا کرنے والے فرد نے فلم میں جادو سے متعلق مشیر کا کردار بھی ادا کیا جبکہ مرکزی کرداروں کو جادوگر کے طور پر کام کرنے میں معاونت فراہم کی۔
فلم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں کہانی کا وقت مسلسل آگے پیچھے چھلانگ لگاتا رہتا ہے، یعنی ٹائم لائن کا ایسا پیچیدہ الجھاؤ ہے جو ذہن کو گھما دیتا ہے۔
مجموعی طور پر 146 ٹائم جمپس لگائی گئیں، یعنی کہانی پیچھے گئی یا مستقبل میں چھلانگ لگا کر پہنچ گئی۔
فلم کا نام جادو کے 3 ایکٹس کے آخری حصے کے نام پر مبنی ہے جسے پریسٹیج کہا جاتا ہے، یعنی ٹائٹل فائنل ایکٹ کا حوالہ دیتا ہے جہاں کچھ ایسا غیرمعمولی ہوتا ہے جو دیکھنے والوں کو شاک کر دیتا ہے۔


























Leave a Reply