عمران خان اور سعد رفیق


نفرت، دشمنی اور تقسیم کا شکار ہماری سیاست میں خواجہ سعد رفیق جیسے دانا اور سلجھے ہوئے افراد بھی موجود ہیں جنکی موجودگی ایک ٹھنڈی ہوا کے تازہ جھونکے جیسی ہے۔ اصول کی بات کرتے ہیں چاہے وہ اپنے مخالف کے حق میں ہی کیوں نہ ہو۔

 موجودہ سیاسی تقسیم کے ماحول میں جب سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ خصوصاً عمران خان کے مخالف یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ خان صاحب اسرائیل کے خلاف بیان دینے سے کیوں کترا رہے ہیں ؟خواجہ صاحب نے عمران خان کے اُس بیان کا خیر مقدم کیا جو اُنہوں نے گزشتہ روز دیا اور جس میں خان صاحب نے اسرائیل کے حوالے سے تو کوئی بات نہ کی لیکن اپنی پارٹی کو ہدایت دی کہ عالمی حالات کے باعث تحریک انصاف اپنی احتجاجی تحریک دو ہفتوں کیلئے ملتوی کر دے۔ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حالات کے اثرات پاکستان پر بھی آئیں گے اس لیے اس موقع پر پاکستان کو متحد ہونا چاہیے۔ 

خواجہ صاحب کا کہنا تھاکہ عمران خان سے سخت سیاسی اختلاف کے باوجود میں بطور ایک قومی سیاسی کارکن عمران خان کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ اُنہوں نے کہا کہ خطے کی نازک جنگی صورتحال کے پیش نظر قومی اتحاد اشد ضروری ہے اس لیے حکومت کو عمران خان کے اس فیصلے کو مثبت انداز میں لینا چاہیے۔ خواجہ صاحب کا کہنا تھا کہ سیاسی افہام و تفہیم کا راستہ نکلنا چاہیے۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم یعنی سیاستدانوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے پر پاوں رکھ کر آگے نہیں بڑھ سکتا، اس ملک میں یہ تجربہ بار بار کیا گیا مگر ہمیشہ ناکام رہا۔

جیسا کہ خواجہ صاحب نے اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو مشورہ دیا کہ خان صاحب کے اس بیان کو مثبت انداز میں دیکھا جائے، میری رائے میں وزیراعظم یا اُن کی حکومت کے کسی ذمہ دار کو ایک بار پھر عمران خان اور تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت دینی چاہیے۔ بے شک عمران خان نے ماضی قریب میں ایک بار پھر یا واضح کیا تھا کہ وہ کسی بھی صورت میں حکومت یا حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں سے بات نہیں کریں گرگے اور یہ کہ وہ صرف اور صرف اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بات کریں گے، اس کے باوجود حکومت اور ن لیگ کی اعلیٰ قیادت کو خواجہ صاحب کے مشورے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ 

بدقسمتی سے عمران خان ہی اپنے مخالف سیاستدانوں (چاہے جب وہ حکومت میں تھے یا اپوزیشن میں) سے ہاتھ ملانے پرکبھی آمادہ نہیں ہوئے۔ قوم کو متحد کرنے کیلئے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک ساتھ بیٹھیں۔ اگر تحریک انصاف پارلیمنٹ میں حکومت کے ساتھ مل کے اسرائیل اور بھارت کے خلاف قراردادیں منظور کر سکتی ہے تو پھر اپنے مخالفین کے ساتھ ایک چھت تلے بیٹھ کر اُس سیاست کا خاتمہ کیوں نہیں کیا جا سکتا جس نے اس قوم میں نفرت اور تقسیم کا بیچ بو دیا۔ ماضی میں جو ہوا سو ہوا، آگے چلیں سیاسی افہام و تفہیم کا رستہ نکالیں اور ایک دوسرے کو برداشت کریں، باہمی احترام کو قائم کریں،کبھی ایک اور کبھی دوسرے کو جیل میں ڈالنے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کی باریاں لینے کی سیاست کوختم کریں۔ 

حکومت کو چاہیے کہ ایک بار پھر عمران خان اور اُن کی جماعت کو مذاکرات کی دعوت دے اور مذاکرات میں خواجہ سعد رفیق اور رانا ثنا اللہ جیسے سیاستدانوں کی اپنی طرف سے شامل کرے۔ عمران خان کو بھی چاہیے کہ اگر وہ واقعی قوم کو متحد کرنا چاہتے ہیں تو سیاسی اختلافات کو دشمنی میں نہ بدلیں اور اپنے مخالفین کے ساتھ ہاتھ ملائیں اور اُن سے مذاکرات کرنےکی اپنی پارٹی کو اجازت دیں۔ خان صاحب اپنی پارٹی کے سلجھے ہوے رہنماوں کی بات سنیں نہ کہ شہباز گل اور قاسم سوری جیسے انتشاری بگھوڑوں کی جنہوں نے اپنی سیاسی مخالفت کو پاکستان دشمنی میں بدل دیا۔ نفرت ، تقسیم اور گالم گلوچ کی سیاست کے ہوتے ہوے قوم کبھی متحد نہیں ہو سکتی چاہے ایک سیاسی پارٹی کتنی ہی مقبول کیوں نہ ہو جائے۔ عمران خان کو سمجھنا چاہیے کہ بحیثیت مقبول رہنما اگر وہ سب کے ساتھ بیٹھے کیلئے تیار ہوں گے تو وہ ملک اور قوم کو متحد کرنے کا سبب بنیں گے اور اس کااُن کو اور اُن کی سیاست کو بھی فائدہ ہو گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔



Source link

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *