
پشاور: خیبر پختونخوا میں پلاسَر گولڈ کی نیلامی میں بے ضابطگیوں کا انکشاف ہو ا ہے۔
تفصیلات کے مطابق نیب نے دریائے سندھ اور دریائے کابل کے کنارے سونے کے بلاکس کی نیلامی کے لیے متعین کردہ کم سے کم قیمت پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیلامی سے صوبے کو کھربوں کا نقصان ہو رہا ہے۔
نیب کے مطابق سونے کے بلاکس کی ریزرو پرائس جان بوجھ کر غلط تعین کی گئی اور نیشنل سینٹر آف ایکسی لینس ان جیالوجی (این سی ای جی ) پشاور کی 2015 کی اسٹڈی کو نظرانداز کیا گیا جس میں فی ٹن 0.21 سے 44.15 گرام تک سونے کے ذخائر کی نشاندہی کی گئی تھی جب کہ محکمے نے کے پی آکشن رولز 2022 پر عمل کرنے کی بجائے مخصوص بولی دہندگان کو فائدہ پہنچانے کے لیے دخل کیا۔
نیب نے سونے کی تلاش کے دوران آپریشنز میں ہوشربا بے ضابطگیاں بھی بے نقاب کی ہیں۔
صوبائی حکومت کی سرکاری دستاویزات کے مطابق نیب کا مؤقف ہے کہ لیز ہولڈرز کھلم کھلا سب لیٹنگ کر رہے ہیں اور فی ایکسکیویٹر ہفتہ وار 5 سے 7 لاکھ روپے تک وصول کر رہے ہیں، ان کی ہفتہ وار آمدن کا تخمینہ 75 کروڑ سے ایک ارب کے لگ بھگ ہے جو کھربوں روپے بنتا ہے جبکہ حکومت کو محض معمولی رقم مل رہی ہے۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے جنگ کو بتایا کہ ان کی حکومت نے پلاسَر گولڈ کے بلاکس زیادہ قیمت پر نیلام کیے، اس سے قبل نیلامی میں ایک بلاک کی قیمت 65 کروڑ روپے تک پہنچی تھی جب کہ ان کی حکومت نے کم از کم قیمت ایک ارب دس کروڑ روپے مقرر کی اور چاروں بلاکس تقریباً 4.6 ارب روپے میں دس سال کے لئے فروخت ہوئے۔
وزیراعلیٰ کے پی کے مطابق کا گزشتہ 20 سالوں سے کوئی نیلامی نہیں ہوئی اور لوگ غیر قانونی طور پر سونا نکالتے رہے جب کہ یہ منصوبہ دو سے تین بار مشتہر ہوا لیکن بولیاں کم آئیں، ہماری حکومت نے زیادہ نرخ پر اسے نیلام کیا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ 2023 میں شروع ہونے والی اسٹڈی کیوں روکی گئی اور کس نے روکی؟ انہوں نے کہا کہ جب نیلامی ہوئی تو نیب کو خط بھی لکھا گیا اور اس کا ایک افسر بھی موجود تھا، تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے جب کہ غیر قانونی مائننگ روکنے کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔
نیب کی انکوائری میں بتایا گیا کہ این سی ای جی پشاور کی 2015 کی اسٹڈی کو نظرانداز کیا گیا
Leave a Reply