دنیا کا سب سے بڑا برفانی تودہ تیزی سے پگھلنے لگا


دنیا کا سب سے بڑا برفانی تودہ تیزی سے پگھلنے لگا

برفانی تودے کی نئی تصویر / فوٹو بشکریہ ناسا

سمندر میں بہنے والا دنیا کا سب سے بڑا برفانی تودہ نمایاں حد تک سکڑ گیا ہے۔

امریکی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے اے 23 اے نامی برفانی تودے کی نئی سیٹلائیٹ تصویریں جاری کی گئی ہے۔

ناسا کے مطابق 3 سے 6 مارچ کے دوران یہ برفانی تودہ 360 اسکوائر کلومیٹر سے زائد رقبے جتنی برف سے محروم ہوا۔

اے 23 اے نامی یہ برفانی تودہ 1986 میں انٹار کٹیکا کے ساحلی علاقے سے الگ ہوکر بحیرہ ودل کی تہہ میں رک کر ایک برفانی جزیرے کی شکل اختیار کر گیا تھا۔

1986 میں انٹار کٹیکا سے الگ ہونے کے بعد برسوں تک یہ تودہ ایک جگہ رکا رہا مگر 2020 میں اپنی جگہ سے آگے بڑھ کر بتدریج South Orkney Islands تک پہنچ گیا۔

مگر پھر کئی مہینوں تک یہ برفانی تودہ ایک ہی جگہ پر سست روی سے گھومتا رہا اور دسمبر 2024 میں اس نے ایک بار پھر اپنا سفر شروع کیا تھا۔

مارچ 2025 سے یہ جنوبی بحر اوقیانوس میں ساؤتھ جارجیا نامی جزیرے کے قریب پھنسا ہوا ہے۔

ناسا کے مطابق ساؤتھ جارجیا سے 100 کلومیٹر دور موجود 3460 اسکوائر کلومیٹر رقبے پر پھیلا یہ برفانی تودہ مارچ کے شروع سے ایک جگہ پر رکا ہوا ہے۔

سیٹلائیٹ ڈیٹا سے انکشاف ہوا کہ سمندری لہروں اور دیگر موسمیاتی اثرات کے باعث یہ برفانی تودہ تیزی سے سکڑ رہا ہے۔

اس سے نہ صرف سمندری سطح میں اضافہ ہوگا بلکہ اس کے پگھلنے یا سکڑنے سے ایک اور بڑا مسئلہ بھی پیدا ہوسکتا ہے۔

سیٹلائیٹ تصاویر سے عندیہ ملتا ہے کہ ہزاروں چھوٹے تودے اے 23 اے سے الگ ہوکر بحری جہازوں کے لیے سنگین خطرہ بن سکتے ہیں۔

ناسا نے بتایا کہ برفانی تودوں کا اس طرح ٹکڑے ہونا غیرمعمولی نہیں مگر اے 23 اے برسوں تک مستحکم رہا مگر اب ایسے اشارے ملے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ وہ کمزور ہو رہا ہے۔

یہ برفانی تودہ بذات خود بحری جہازوں کے لیے خطرہ نہیں کیونکہ یہ اتنا زیادہ بڑا ہے کہ جہازوں کے لیے اس سے بچنا بہت آسان ہوتا ہے۔

مگر جب یہ چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوگا تو پھر محدود سمندری حصوں میں جہازوں کا سفر متاثر ہوسکتا ہے۔



Source link

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *