وہ بچہ تھا، گلی میں کھیل رہا تھا، جب اس کے والد، والدہ کو گرفتار کیا گیا اور اس کی بہن کو مار دیا، وہ کھیلتے ہوئے بھاگ گیا ورنہ اسے بھی مار دیا جاتا۔
بیجنگ کی ایک گلی سے بھاگنے والے اس بچے کا نام شی جن پنگ ہے، اس نے زندگی کے مشکل مراحل بچپن میں دیکھے، وہ دن بھر کھیتوں میں کام کرتا اور رات کو غار میں سوتا، چند سال بعد بیجنگ واپس آیا اور سیاست شروع کی۔
چین کی صدارت تک پہنچنے کیلئے اسے کئی مراحل سے گزرنا پڑا، ان مراحل پر کئی کالم لکھے جا سکتے ہیں مگر میں یہاں صرف ایک بات لکھ کر ایران اسرائیل کی بات شروع کر دوں گا۔
1979ء میں شی جن پنگ کی شادی ایک سفارت کار کی بیٹی سے ہوئی مگر یہ شادی دو تین سال میں ختم ہوگئی، وہ خاتون طلاق کیلئے عدالت پہنچی تو جج نے مختلف سوال کر ڈالے، خاتون نے تمام سوالوں کے جواب ایک دو جملوں میں دیئے، کہنے لگیں؛ ’’ مجھے ان سے کوئی شکوہ نہیں ہے، یہ میری ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں، بس ایک ہی شکوہ ہے، یہ شخص بولتا نہیں، ہر وقت سوچتا رہتا ہے، میں کس سے باتیں کروں‘‘۔ یوں چپ رہنے پر، خاموشی کے سبب، ہر وقت سوچتے رہنے کی وجہ سے، شی جن پنگ کی پہلی شادی کا خاتمہ ہو گیا۔
مذکورہ بالا واقعہ مجھے اس لئے یاد آیا کہ جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو سب ملکوں نے بولنا شروع کیا، کچھ حکمرانوں نے اسرائیلی مؤقف کی حمایت کی تو کچھ حکمرانوں نے ایرانی مؤقف کو سراہا، اسلامی ممالک کی اکثریت ایران کے ساتھ کھڑی ہو گئی، چین اور روس نے ویٹو بھی کیا، اسرائیل اور ایران ایک دوسرے پر حملے کرتے رہے مگر وہ چپ رہا پھر امریکی صدر نے یہاں تک کہہ دیا کہ شمالی کوریا اور چین، ایران کی عملی مدد کر رہے ہیں۔
اسی دوران فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے ایران کے خلاف لہجے تلخ ہوگئے پھر امریکی صدر کی طرف سے بھی دھمکی سامنے آئی، ایرانی قیادت اس دوران استقامت سے کھڑی رہی، جب لفظی گولہ باری عروج پر پہنچی تو سب حیران تھے کہ وہ کیوں خاموش ہے؟ سب سے زیادہ پریشانی امریکیوں کو تھی کہ وہ کیوں چپ ہے؟ پھر ایک شام اس نے حیرت میں مبتلا دنیا کو یہ کہہ کر مزید حیران کر دیا کہ’’ اب دنیا امریکا کے بغیر بھی آگے بڑھ سکتی ہے‘‘۔ وہ چپ تھا تو دنیا حیران تھی کہ چپ کیوں ہے؟ وہ بولا تو دنیا حیران ہوکر چپ کر گئی ہے، دھمکیوں والے خاموش ہو گئے ہیں، یہ کیا ہو گیا ہے؟ ویسے شی جن پنگ کی شخصیت بھی کمال ہے کہ چپ رہے تو دنیا پھر بھی حیران اور بول پڑے تو مزید حیران۔
امریکی صدر کی کھلے عام دھمکیوں کے جواب میں چینی وزیر خارجہ نے بھی اسی لب و لہجے میں جواب دیا ہے کہ’’ امریکا باپ نہیں جو حکم صادر کرتا پھرے، ایک منٹ نہیں لگے تمام کمپنیوں کو تالے لگوا دیں گے اور دوسرے دن امریکی سڑکوں پر آ جائیں گے، چائنہ کی جتنی ایک دن کی انکم ہے، امریکا کا اتنا دفاعی بجٹ بھی نہیں ہے، ٹرمپ اپنی زبان سے سوچ سمجھ کر الفاظ نکالے‘‘۔
ایران اسرائیل جنگ میں وہ الفاظ بہت قیمتی ہیں جو اپنی قوم سے مخاطب ہو کر ایرانی رہبر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ادا کیے ہیں، وہ کہتے ہیں’’ میری جان کی کوئی قیمت نہیں، ایک ناقص جسم ہے اور تھوڑی سی شہرت جو آپ لوگوں نے دی ہے، میں نے سب کچھ اسلام اور اس انقلاب کیلئے رکھا ہوا ہے، میں سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہوں، سنت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرح‘‘۔
ابھی تک کے جنگی نتائج میں ایران نے دنیا کو حیران کیا ہے اور مزید حیران کرتا جا رہا ہے، ایرانیوں اور اسرائیلیوں میں ایک فرق ہے، ایرانی قوم حملوں کے بعد آپ کو سڑکوں پر نظر آتی ہے جبکہ اسرائیلی بنکروں میں چھپے ہوئے ہیں یا پھر سمندروں کے راستے بھاگنے کی کوششوں میں لگے ہیں۔
ایران بڑا ملک ہے، اسرائیل پوری ایرانی آبادی کو نشانہ نہیں بنا سکتا، اسرائیل چھوٹا ہے، اس کا بچنا مشکل ہے، اسرائیل اور اس کے حواریوں کو ایرانی میزائلوں کی سمجھ ہی نہیں آ رہی کیونکہ وہ سب بے بس ہو چکے ہیں، آنے والے دنوں میں اسرائیل کا بہت زیادہ نقصان ہو گا، ایران کیلئے لمبی جنگ لڑنا مشکل نہیں، اسرائیل کیلئے لمبی جنگ لڑنا مسئلہ ہے، ایران نفع نقصان سے ہٹ کر نظریے کی بنیاد پر جنگ لڑ رہا ہے، ایران نے کبھی مفادات کو مد نظر نہیں رکھا، اسی لئے وہ باطل قوتوں کیلئے پریشانی کی علامت ہے، بقول اسد اعوان۔
اب خامنہ ای رزم میں چلتے ہیں چپ رہو
نقشہ جہان بھر کا بدلتے ہیں چپ رہو
ہر دشمنِ علی کو کچلتے ہیں چپ رہو
لشکر کہاں عدو کے سنبھلتے ہیں چپ رہو
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
Leave a Reply